کشمیر میں بھارتی جارحیت عالمی تناظر میں
کشمیر میں بھارتی جارحیت عالمی تناظر میں
بھارت کے پچھلے عام انتخابات میں نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کو جن خطوط پر استوار کیا تھا اس سے یہ تو صاف نظر آتا تھا کہ وہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد نریندرا مودی اپنی فطری انتہا پسندی کو کھلی چھوٹ دینے کا ارادہ کئے بیٹھا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت کی سیاست اور معیشت پر گہری نظر رکھنے والے صاحب الرائے افراد کی اکثریت برصغیر پاک و ہند کی فضاء کو تیزی سے آلودہ ہوتے دیکھ رہی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور میں مقبوصہ جموں اور کشمیر کی جداگانہ حیثیت اور بھارتی آئین کی دفعہ 35 اور 370 کے خاتمے کو باضابطہ طور پر شامل کر کے نریندرا مودی نے انتہا پسند ہندوئوں کی واضح اکثریت کو اپنا ہمنوا بھی بنا لیا تھا۔ لیکن اِن سب واضح اشاروں کے باوجود عالمی مبصریں اور کشمیر واچرز(Watchers) کی اکثریت ان اقدامات کی اس تیزی سے توقع نہیں کر رہے تھے جس طرح گزشتہ ایک ماہ میں سامنے آنے والے حالات نے ثابت کیا ہے۔ آج بہر طور زمینی حقائق مندرجہ ذیل صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں:-
- بھارتی آئین سے مقبوصہ جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت سے متعلق آئینی دفعات کا خاتمہ ہو چکا ہے اور وادی کو باقاعدہ بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے۔
- ضلع لداخ کو جموں سے علیحدہ کر کے وفاقی علاقہ جات (Federal Territories) کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور اس طرح بھارت نے عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ ایک نئی سرحد کا اضافہ کر دیا ہے۔
- حکومت کے اس اقدام کے خلاف اپوزیشن کی جماعت کانگرس اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے۔ تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے اس درخواست کی جلد سماعت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کو وادی کے حالات کو قابو کرنے کے لئے مناسب وقت دینے کی ضرورت ہے اور درخواست کی سماعت اپنی باری پر کی جائے گی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب اِس درخواست کی سماعت 5 اکتوبر سے بھارتی سپریم کورٹ کا ایک پانچ رُکنی بینچ کرے گا۔ قابض افواج کی طرف سے لا تعداد گرفتاریوں کی اطلاعات ملی ہیں جسکا خصوصی نشانہ نوجوان کشمیری مسلمان ہیں۔
- بھارتی فوج کے تازہ دم دستوں کے وادی میں پہنچنے کے بعد گزشتہ 25 دنوں سے مکمل محاصرہ کی صورتحال ہے اور پوری وادی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ کرفیو کے نفاذ میں کوئی وقفہ نہیں دیا جا رہا حتیٰ کہ جمعہ اور عید الاضحی کی نمازوں تک کے لئے کوئی سہولت نہیں دی گئی۔ کرفیو توڑ کر نماز ادا کرنے کی کوشش کرنے والوں پر بھارتی فوجی اور نیم فوجی دستوں نے براہ راست فائرنگ کی۔ تاہم مواصلات کے تمام ذرائع کی مکمل بندش کے باعث اس کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
- مسلسل کرفیو کے نفاذ اور بے رحمانہ محاصرے نے اشیائے خور و نوش کی شدید قلت پیدا کر دی ہے اور بچوں اور بیماروں کی مسلسل بندش ایک نئے انسانی سانحے کو جنم دے رہی ہے۔ تاہم بھارتی حکومت اور قابض افواج اس پر مسلسل خاموش اور سرد مہری کا مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
- بھارت نے آزاد کشمیر اور مقبوضہ علاقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول (LoC) پر تعینات فوجوں میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے اور بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ وہ کسی قسم کی جارحیت کو بھی خارج از امکان نہیں سمجھتا۔
- دوسری طرف بھارتی حکومت کے اس یک طرفہ اقدام نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کو کئی نئے چیلینجزکے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ ملک بھر اور آزاد کشمیر میں غم و غصہ کی ایک لہر اس کھلی جارحیت کا جواب چاہتی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت اور اس کے اداروں پر دبائو میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ایک بار پھر حکومتِ پاکستان نے کسی جذباتی ردعمل کی بجائے بین الاقوامی سطح پر سفارتی کوششوں کو اپنی حکمتِ عملی کا بنیادی جزو بنایا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے امریکہ، فرانس، برطانیہ، سعودی عرب، ایران، ترکی، ملائیشیا، بحرین، قطر اور کئی دوسرے ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت سے ذاتی طور پر رابطہ کیا ہے اور معاملات کی سنگینی کے پیش نظر کردار ادا کرنے کو کہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین کا ہنگامی دورہ کیا جہاں چینی وزیر خارجہ کے ساتھ صورتحال پر تفصیلی جائزہ لیا گیا جس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں چین نے بھارت کے یک طرفہ اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اسے کھلی جارحیت قرار دیا اور ساتھ ہی ساتھ لداخ کی آئینی حیثیت میں تبدیلی پر بھی سخت احتجاج کیا۔ تاہم چین کے علاوہ دوسرے تمام ممالک کا ردعمل نپا تلا اور خالصتاً سفارتی آداب کے مطابق رہا۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر مسلم امہ کے سرکردہ ممالک کی جانب سے اس مسئلے پر تقریباً سرد مہری دیکھنے میں آئی جو پاکستانی عوام کے لئے خاصی حوصلہ شکنی کا باعث بنی۔
- پاکستان نے معاملہ کو باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کیا اور اقوامِ متحدہ سے اس سنگین صورتحال پر سلامتی کونسل فوری اجلاس کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل نے اپنے ردعمل میں بھارت کے اقدام پر تشویش کا برملا اظہار کیا تھا تاہم سلامتی کونسل کا ایک بند کمرہ اجلاس میں معاملے کا جائزہ لیا گیا۔ اگرچہ گزشتہ پچاس برس کے درمیان سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالے سے پہلی کاروائی تھی لیکن یہ کاروائی بھی محض رسمی ہی رہی اور اسکا نہ تو کوئی اعلامیہ جاری ہوا اور نہ ہی کوئی ٹھوس یا مثبت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
- امریکہ نے جس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کا بیان دے کر سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا خصوصاً جب انہوں نے بتایا تھا کہ ایسا کرنے کے لئے انہیں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے کہا ہے ابتدا میں ہمیشہ کی طرح ایک روایتی بیان پر ہی اکتفا کیا ہے جس میں دونوں ممالک سے برداشت اور باہمی رابطے میں اضافے پر زور دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ G-7 کے حالیہ اجلاس کی سائید لائن پر صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیرِاعظم کے درمیان اِس مسئلہ پر بات ہوئی۔ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں تاہم اِس سے متعلق کوئی اِہم بات نہیں کی گئی اور بظاہر پاکستان کے دفترِخارجہ کی اِس میٹنگ سے لگائی جانے والی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ پریس سے بات چیت کے دوران دونوں رہنماؤں کی بدن بولی (Body Language) مکمل ہم آہنگی کی مظہر دِکھائی دیتی تھی۔ صدر ٹرمپ نے یہ تک کہ دیا کہ بھارتی وزیرِ اعظم مسئلے کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان رکھنا چاہتے ہیں اور کسی ثالثی کے خواہش مند نہیں۔
- یہ بات تقریباً واضح ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا باقاعدہ اجلاس طلب ہو بھی گیا تو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے پاکستان کو صرف چین کی غیر مشروط اعانت حاصل ہو گی جبکہ بقیہ چار ارکان خصوصاً فرانس اور روس کسی بھی وقت ’’ویٹو‘‘ کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سلامتی کونسل کے اجلاس سے، اگر وہ بلا بھی لیا جائے کسی مثبت نتیجے کی توقع رکھنا خام خیالی کے مترادف ہو گا۔
- پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر اس اقدام کی ٹائمنگ (Timing) اس اعتبار سے بھی حیران کن ہے کہ پوری دنیا کی نظریں اس وقت ہماری مغربی سرحدوں خصوصاً افغانستان میں ہونے والی پیش رفت پر ہیں جس میں امریکہ اور یورپی یونین سمیت سبھی ممالک پاکستان سے ایک اہم کردار کی توقع کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ حقیقت بھی سب کے پیش نظر ہے کہ افغانستان کے تنازعے کے حل میں بھارت کو کوئی قابلِ ذکر کردار کا نہ ملنا بھی مودی سرکار کے لئے کسی تازیانے سے کم نہیں تھا خصوصاً اس وقت جب وہ افغانستان اور عسکریت پسند گروہوں کو بنیاد بنا کر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) میں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہ رہی تھی۔
یہ تمام حقائق ہر لحاظ سے ایک سنگین بحران کی نشاندہی کر رہے ہیں اور دو ہمسایہ ممالک کے درمیان جو ایٹمی صلاحیت کے حامل بھی ہیں تیزی سے بڑھتا ہوا تناؤ کسی بھی انسانی سانحے کو جنم دے سکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا بھارت کے عزائم صرف مقبوضہ کشمیر تک ہی محدود ہیں یا ان کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کی سٹریٹیجک (Strategic) مستقبل سے ہے۔ اگر ہم حالات کو اس دوسرے تناظر سے دیکھیں تو ہمیں اس خطے میں ماضی قریب میں ہونے والی چند اہم developments کو نظر میں رکھنا ہو گا۔ میری کوشش ہو گی کہ انتہائی اختصار سے ان میں سے اہم ترین نکات کا احاطہ کروں۔
عالمی معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین اور ادارے ایک عرصے سے اس بات پر متفق ہیں کہ اکیسویں صدی عالمی معیشت کے تناظر میں عوامی جمہوریہ چین اور ترقی پذیر ممالک کی صدی ہے۔ اس نقطۂ نظر پر گو وقتاً فوقتاً اعتراضات اٹھائے گئے لیکن ان کو کچھ زیادہ پذیرائی نہ ملی۔ امریکہ نے جو ہر صورت عالمی معیشت میں اپنی امتیازی حیثیت کو باقی رکھنے کا عزم رکھتا ہے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے مرحلے میں South China Sea اور East China Sea میں چین اور جاپان اور مشرق بعید کے دوسرے ممالک کے درمیان تنازعات کو ہوا دی۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی (2001-2010) ان کوششوں کی بارآوری کی دہائی تھی۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کی صدارت کے دوسرے دور (2012-2016) کے دوران اس حکمتِ عملی کو باقاعدہ شکل دیتے ہوئے امریکہ نے بھارت کو جنوب مشرقی ایشیا اور پیسیفک (Pacific) کے لئے اپنا (Strategic Ally) قرار دے دیا اور اس بات کا برملاء اظہار کیا کہ اس شراکت کا دائرۂ کار ایک طرف پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند گروہوں کے خاتمے اور دوسری طرف چین کی مبینہ توسیع پسندی (Expansionism) کے راستے میں رکاوٹ بننے کے لئے ہو گا۔ یہی دور پاکستان اور امریکی کے درمیان 70 سالہ سفارتی تعلقات کی تاریخ کا سرد ترین دور بھی تھا اور اس دوران کئی ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے پاکستان کو ایک نئی علاقائی اور بین الاقوامی حکمتِ عملی کی طرف دھکیلا۔ صدر باراک اوبامہ کی حکومت کے آٹھ سال اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دو سالوں میں امریکہ نے ہر طرح سے ہندوستان کو افغانستان میں ایک مرکزی کردار سونپنے کی بھر پور کوشش کی جو غیر فطری ہونے کے باعث کامیابی سے ہمکنار تو نہ ہو سکیں تاہم ان کے نتیجے میں بھارت اور افغانستان کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان ایک مضبوط شراکت داری کی بنیاد بن گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی RAW نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت افغانستان کے نوجوانوں اور فکر انگیز طبقے (Intelligentia) کو اپنا ہدف بنایا اور ان کے ذہنوں میں پاکستان دشمنی کے بیج بوئے۔ یہ ساری صورتحال ایک مختلف تحریر کی متقاضی ہیں جو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہوئے میں اپنے اصل موضوع کی طرف واپس لوٹتا ہوں۔
عوامی جمہوریہ چین نے اس تمام حکمتِ عملی کو جواب انتہائی مؤثر طریقے سے دیا اور ایک طرف تو مشرق بعید میں اپنے تنازعات کو حل کرنے کی کوششیں تیز کر دیں اور دوسری طرف مشرق بعید میں کسی بھی ممکنہ بندش کے توڑ کے لئے بلڈ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کا آغاز کیا جو چین کے صدر شی جن پنگ کے عالمی ویژن کا کلیدی حصہ ہے۔ CPEC اسی BRI کا ایک کلیدی منصوبہ ہے جس پر 2014 میں عملی کام کا آغاز کیا گیا جس کے ذریعے چین کو اپنے مغربی علاقوں سے جڑے پاکستان اور گلگت بلتستان کے سٹریٹیجک ایریا کے ذریعے گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر تک رسائی ملنا ممکن ہو جائے گا جس کا نتیجہ چین کے ان مغربی علاقوں جو ابھی مقابلتہً بہت کم ترقی یافتہ ہیں کی تیز رفتار معاشی ترقی کی صورت میں نکلے گا۔ یہ معاشی ترقی ایک طرف تو نسبتاً زیادہ ترقی یافتہ علاقوں کے مقابلے میں کئی دہائیوں تک کم لاگت پر صنعتی پیداوار مہیا کرے گی جس میں چین کی قومی پیداوار میں اضافے کو آنے والے ممکنہ چیلینجز کا سامنا (2020-2060) کی دہائیوں میں ممکن ہو سکے گا اور دوسری طرف ان علاقوں کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے ذریعے اسلامی عسکریت پسندوں کے ممکنہ پھیلاؤ اور (Popular Appeal) کا خاتمہ کرنے میں مدد دے گا جو چین کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں چین نے پاکستان کے تعاون سے ایسٹ ترکستان اسلامی موومنٹ (ETIM) کے انتہا پسندوں کے خلاف انتہائی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں جنہوں نے چین کے کئی اہم شہروں میں دہشت گردی کے واقعات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ واضح رہے کہ BRI میں اب تک 80 سے زیادہ ممالک شامل ہو چکے ہیں اور یہ ایک اہم ترقیاتی اشتراک (Development Partnership) کی صورت میں سامنے آ رہا ہے جو صدر شی جن پنگ کے الفاظ میں ’’قوموں کی مشترکہ ترقی‘‘ (Shared Development of Nations) کے حصول کی ایک کوشش ہے۔ ہندوستان نے برملا CPEC کو بھارتی مفادات پر ایک کاری ضرب قرار دیتے ہوئے ہر فورم پر اس کی مخالفت کی ہے۔ تاہم وہ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے باوجود چین کو گوادر تک رسائی سے روکنا امریکہ اور بھارت کا مشترکہ ہدف ہے جس کے لئے وہ ایک Strategic Partnership کا باقاعدہ اعلان بھی کر چکے ہیں۔
جب اس پوری صورتحال کو اس تناظر سے دیکھا جائے تو لامحالہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے حالیہ مہم جوئی کا مقصد اس سے کہیں زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے جو بظاہر ابھی تک ہمارے تجزیہ نگاروں کے سامنے ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں کی جانے والی کھلی بھارتی جارحیت اور اس پر چین کے علاوہ سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کی مسلسل خاموشی‘ معاملات کوایک وسیع (Broader) نقطۂ نظر سے دیکھنے کا تقاضا کرتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران یہ اعلان کہ بھارت آزاد کشمیر کے ساتھ LoC کو عبور کرنے کا منصوبہ بھی بنا رہا ہے شاید اس امر کا غماز ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر میں چاہوں گا کہ اس تناظر میں ایک اور اہم کردار کی نشاندہی کرتا چلوں۔ مجھے یقین ہے اگر بھارت اور نریندرا مودی ایسے کوئی بھی عزائم رکھتے ہیں تو انہیں اسرائیلی انٹیلی جنس اور مسلح افواج خصوصاً اسرائیلی فضائیہ کا عملی تعاون درکار ہو گا کیونکہ بھارتی ائر فورس اسرائیلی مدد کے بغیر LoC کی کسی بڑی خلاف ورزی کے قابل نہیں ہے۔ اسرائیل اور بھارت کی افواج خصوصاً فضائیہ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان باہمی تعاون کوئی نئی چیز نہیں اور اس کا آغاز 1998 میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد مستقل بنیادوں پر استوار ہو گیا تھا۔
میرے ذاتی نقطۂ نظر سے اس کا تیسرا تناظر کشمیر کے تمام علاقوں (مقبوصہ اور آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان) کے تنازعے کو دوبارہ مرکزی حیثیت دے کر عالمی امن کو ممکنہ خطرات کی بنیاد بناتے ہوئے تمام علاقوں میں ہر قسم کی پیش رفت پر رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ ایسی صورت میں بھارت کی (اور امریکہ کی بھی) اولین کوشش یہ ہو گی کہ گلگت بلتستان بھی اس تنازعے کے حصے کی صورت میں اجاگر ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی پاکستانی ’’چین پاکستان معاشی راہداری‘‘ (CPEC) میں گلگت بلتستان کے کلیدی کردار سے بے خبر نہیں اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے معاشی پالیسی سازوں میں سے ہر ایک یہ بھی جانتا ہے کہ بھارت نے کئی بار CPEC کے تناظر میں گلگت بلتستان کے ایک متنازعہ علاقہ ہونے کا سوال اٹھایا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں بھارت کی جانب سے اس حساس علاقوں میں بد امنی پھیلانے کے لئے کی جانے والی کوششیں بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بلوچستان کی طرح یہاں بھی ہم بھارتی کارروائیوں کو اس طرح عالمی فورمز پر نہیں اٹھا سکے۔ تاہم یہ بات باعث اطمینان ہے کہ گلگت بلتستان میں ایسی کوئی بھی کوشش بارآور نہیں ہو سکی جس کا مکمل سہرا وہاں کے محبِّ وطن عوام کو جاتا ہے جن کی رگ رگ میں پاکستان سے والہانہ محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے ہمیں یہ بھی نظر میں رکھنا چاہئے کہ گزرتی دہائی اور پچھلی دہائی کے اوائل میں امریکہ‘ ہندوستان اور اسرائیل مشترکہ طور پر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو افغانستان اور دہشت گردوں کے ممکنہ حصول کے حوالے سے دنیا بھر میں اچھالتے رہے ہیں۔ اس تناظر میں اس بات کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کوشش کی ناکامی کے بعد جس کا سہرا دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کو جاتا ہے‘ اب پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ممکنہ پاک بھارت تصادم کے نقطٔہ نظر سے فوکس میں لایا جائے۔ اگرچہ ایسی کوئی بھی کوشش برصغیر میں طاقت کے توازن کی ساری بنیادوں کو تہس نہس کر کے رکھ دے گی لیکن ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ بھارت کے ساتھ ایٹمی توانائی کے سول استعمال کا unilateral معاہدہ بھی امریکہ ہی نے کر رکھا ہے اور بھارت کو اس حوالے سے عالمی اداروں کی رکنیت دلانے اور پھر سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی کوششوں کو بھی ان کی مکمل آشیرباد حاصل رہی ہے۔ ذاتی طور پر میں ایسی کسی کوشش کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیتا۔ دوسری طرف گلگت بلتستان کو تنازعے کا حصہ بنا کر بھارت CPEC کے خلاف امریکہ کے مقاصد پورے کرنے کا کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
یہ تمام صورتحال محکمۂ خارجہ میں ایک کثیر الجہت (multifaceted) سٹریٹیجی ترتیب دینے کا تقاضا کرتی ہے جس کے بنیادی خدوخال ترتیب دینے کا کام ایک ایسے تھنک ٹینک کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے جس میں ان موضوعات پر دسترس رکھنے والے پاکستان کے موجودہ اور سابق صفیر‘ مسلح افواج اور انٹیلی جنس اداروں سے متعلق subject specialistsاور گزشتہ کچھ سالوں میں CPEC پر پالیسی سازی کا کام کرنے والے سول افسران کا چناؤ کرنا ہو گا۔ یہ کام ہمہ وقتی ہو گا اور اس کے لئے ڈیسک افسران نہ تو اہلیت کے مطلوبہ معیار پر پورے اتر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی دوسری پیشہ ورانہ مصروفیات انہیں اس پر کام کرنے کا موقع دے سکیں گے۔
دفتر خارجہ کی طرف سے کشمیر ڈِسک کے قیام اور بیرونِ ملک پاکستانی سفارت خانوں میں بھی کشمیر ڈیسک کا آغاز میرے ذاتی خیال میں شاید کوئی اہم کردار ادا نہ کر سکیں۔ گزشتہ 32 سالوں کے دوران سرکاری دفاتر میں بننے والی اس لاتعداد ٹاسک فورسز (Task Forces) اور ڈیسکس (Desks) کے نتائج کا شاہد ہونے کی حیثیت سے میری مخلصانہ تجویز یہ ہو گی کہ ہمیں معاملے کی کلیدی نوعیت اور اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی گہرائی اور گیرائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ بھی خیال رکھنا ہو گا کہ معاملے کی قانونی‘ آئینی اور بین الاقوامی جہتوں سے قطع نظر کشمیر پر حالیہ بھارتی اقدام نے ابتدائی طور پر وزن کا پلڑا ان کے حق میں جھکا دیا ہے اور ردعمل کی اثر انگیزی (Effectiveness of Response) کا سارا بوجھ ہم پر ڈال دیا ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے عالمی رہنماؤں سے رابطے اور گفتگو اپنی جگہ اہم تو ہو سکتے ہیں لیکن اگر ان کو ان رابطوں اور گفتگو کے لئے ملنے والے ٹاکنگ پوائنٹس (Talking Points) دفتر خارجہ کے روایتی موضوعات تک محدود رہے تو شاید یہ رابطے اپنا مکمل ہدف حاصل نہ کر سکیں۔ میں ذاتی طور پر اقوامِ متحدہ میں مستقل پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی صلاحیتوں کا ہمیشہ سے قائل رہا ہوں اور بخوبی جانتا ہوں کہ وہ اس صورتحال میں کس قدر اہم کردار ادا کرنے کی اہل ہیں۔ تاہم میں چاہوں گا کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سائڈ لائنز پر پاکستان کی طرف سے ”کشمیر کانفرنس“ کے انعقاد کی تجویز پر غور کریں۔ یہ تجویز انہیں دینے سے میرا مقصد یہ ہے کہ وہ اس بات کا سب سے بہتر اندازہ کر سکتی ہیں کہ یہ کانفرنس کس حد تک مثبت نتائج لا سکتی ہے۔ اگر ان کے خیال میں ایسا ممکن ہو تو شاید پاکستان کے لئے عالمی سطح پر اس مسئلے کو حقیقی طور پر اجاگر کرنے کی یہ بہترین صورت ہو گی۔ میں جانتا ہوں کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر وزیراعظم عمران خان کے خطاب کا بنیادی جزو ہو گا‘ تاہم جو توجہ ایک موضوعاتی کانفرنس (Dedicated Forum) کو حاصل ہو سکتی ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہو گی۔ اِس کانفرنس میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں، رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے افراد اور صحافی خصوصاً یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں اثر رکھنے والے(Opinion Makers) کو بھی مدعو کرنا چاہیئے۔
میں یہ بھی چاہوں گا کہ پاکستانی عوام اور پالیسی ساز اس صورتحال میں کسی فوری اور معجزاتی تبدیلی کی امید نہ رکھیں تو بہتر ہو گا۔ میں ذاتی طور پر اس بات پر بھی یقین رکھتا ہوں کہ کشمیر میں حالیہ بھارتی اقدام بالآخر بھارتی شکست اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقِ خودارادیت کے حصول کی صورت میں نکلے گا لیکن پچھلے 70 برسوں ے جدوحہد آزادی میں مصروف کشمیری عوام کو شاید ابھی خاک و خون کے کچھ اور سمندروں سے گزرنا باقی ہے اور خود ایک کشمیری ہونے کی حیثیت سے مجھے اس بات کا یقین بھی ہے کہ کشمیریوں میں اس کے لئے نہ تو امنگ اور لگن کی کمی ہے اور نہ ہی حوصلے اور ہمت کی۔
شاہیں کا تجسس بھی ہے چیتے کا جگر بھی
اب جنگ کی ٹھہری ہے تو ٹلنے کے نہیں ہم
یہ سب باتیں ایک طرف اہم ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری پالیسی سازوں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ بھارت نے اس قدم کے لئے جو وقت چنا ہے وہ معاشی لحاظ سے پاکستان کی 72 سالہ تاریخ کے مشکل ترین ادوار میں سے ایک ہے۔ اس ابھرتی ہوئی صورتحال سے نہ صرف پاکستانی معیشت پر دباؤ میں اضافہ ہو گا بلکہ بے شمار نئے چیلنجز بھی سامنے آئیں گے جن کے لئے ایک علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے جو انشاء اللہ جلد آپ کے سامنے لاؤں گا۔ یہاں صرف اتنا کہتا چلوں کہ ان معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمزوری بہر طور اس کے سٹریٹیجک (strategic) معاملات پر بھی گہرا اثر ڈالے گی سو اس کی اہمیت ہر لحاظ سے اتنی ہی ہے جتنی تمام دوسرے عوامل اور اسباب کی۔
ستمبر ۲۰۱۹