غزل


کچھ دنوں تک یہ بھی اندازِ صبا ہو جائے گا

خار بھی گل کی طرح خونیں قبا ہو جائے گا

وہ سنا ہے مائلِ ترکِ جفا ہو جائے گا

ہم نہیں ہوں گے مگر سب کا بھلا ہو جائے گا

بیوروکریسی


مرے قبیل کے لوگوں کا المیہ یہ ہے

کہ جھوٹ سچ میں تفاوت کیا نہیں کرتے

امیرِ شہر اگر دعوٰئ خُدائی کرے

تو رَدِّ کفر کی جرأت کیا نہیں کرتے

آنے والی حقیقتیں


کئی دنوں سے دل و ذہن پہ

عجیب سی کیفیت ہے طاری

کئی دنوں سے

تِری جُدائی کا خوف آنکھوں میں آبسا ہے

غزل


زخمِ وفا و داغِ تمنا لئے ہوئے

آیا ہوں تیرے پاس میں کیا کیا لیے ہوئے

ہر راہ گزر سے تیرا پتہ پوچھتا پھروں

ڈھونڈوں چراغِ نقشِ کفِ پا لئے ہوئے

غزل


ایک احساس کہ مِنّت کشِ اظہار نہ تھا

وہ سمجھتے ہیں کہ میں اُن کا طلبگار نہ تھا

ہم نے اک عُمر اُسے دِل میں بسائے رکھا

ہائے وہ شوخ کہ خود سے بھی جسے پیار نہ تھا