غزل


ہمیں لگا کہ کسِی اور ہی دیار میں تھے

عجیب رنگ ہی اب کے برس بہار میں تھے

جو ردِّ کُفر کی بیعت کے مرتکب ٹھہرے

ہم اہلِ صدق و صفاء کی اُسی قطار میں تھے

غزل

(نذرِ ناصر کاظمی)


مرے چمن میں کِھلا تھا جو پھول بن کے خوشبو بِکھر گیا وہ

جو میرے آنگن کی چاندنی تھا نہ جانے اب کِس کے گھر گیا وہ

جو رات بھر چاند بن کے میری جواں اُمنگوں کے ہم سفر تھا

کسِی حسیں خواب کیطرح سے سحر ہوئی تو بکھر گیا وہ

گذار دیں جس کے گھر کی دہلیز پر جوانی کی گرم راتیں

غزل


مجھے بھی تشنہ لب کانٹوں کی یاد آتی تو ہے لیکن

جنونِ آبلہ پائی کو پاؤں کی ضرورت ہے

طبیعت شہر کی رنگینیوں سے بھرتی جاتی ہے

پہاڑوں میں گھِرے چھوٹے سے گاؤں کی ضرورت ہے

غزل


مزاجِ شہرِ ستم گو بدل نہیں سکتا

یہ ظلم و جبر کا موسم بھی چل نہیں سکتا

بدل بھی لوں میں اگر یہ مزاحمت کا مزاج

تو اُسکے موم کے سانچے میں ڈھل نہیں سکتا

کشمیر ۲۰۲۰


سُنا ہے وادی نے آنے والے برس کی خاطر
نئے شہیدوں کی فصل تیار کر رکھی ہے
یہ معرکہ اب جنوں کی ساری حدوں سے آگے گزر گیا ہے
جو جبر سہ کر بھی سر بہ کف ہے، وہ جی رہا ہے
جو ظلم کر کے بھی ڈر رہا ہے، وہ مر گیا ہے

غزل


کِسی کے ساتھ بھی اُسکا گذارا ہو نہیں سکتا

جو میرا ہو نہیں پایا تمہارا ہو نہیں سکتا

پرندے کر گئے ہجرت سبھی کیوں میری بستی سے

یہ فصلِ گُل کے آنے کا اشارا ہو نہیں سکتا

تِن شعر پنجابی دے


دِل اِک ڈونگا کُوک سمندر جِس دے لمبے پینڈے

وریاں تک نہ منزل مِلدی لوکی چلدے رہندے

جیہڑا توں میں پیار دی پہلی سالگرہ تے لایا سی

اج ویہہ اوس درخت دی چھاں دے تھلّے لوکی بہندے