افغانستان کے نام


مرے ہمسائے کے گھر ميں
کئی برسوں سے قتل وخون جاری ہے
کبھی دريا ئے آمو کے پر ے سے
بپھرتا ریچھ اُن کو

غزل


جب بھی اُٹھی نگاہ تری رہگذر میں تھا

کتنا خُلوص گردشِ شام و سحر میں تھا

ناسور بن کے دِل میں سماتا چلا گیا

میٹھا سا ایک درد جو میرے جِگر میں تھا

غزل


فسانہء غمِ دِل اُس کے نام کر لیتے

اُسے بُلانے کا کچھ اہتمام کر لیتے

ہم اہلِ درد بساتے اگر نگر اپنا

تو شاہراہ کوئی تیرے نام کر لیتے

جہدِ مسلسل
( یاسین ملک کے نام)


تمہيں جو بھی کہا تھا ظالموں نے
تم نے کر ڈالا
لرزتے کانپتے بے جان لفظوں ميں
سُنا ڈالا وہی اک فيصلہ جو

جولائی ۲۰۱۸
۵


یہی وہ دِن تھا
جس دِن محتسب نے جال پھینکا تھا
مِری آنکھوں کے آگے لا کے
اِک تحریر رکھی تھی

سلام


ہر ایک دور میں ہوتا ہے معرکہ حق کا

فریب بھی کئی ہوتے ہیں روز طشت ازبام

ہر ایک دور کے اپنے یزید ہوں گے مگر

حسینؑ ایک ہے جس کے لئے ہے میرا سلام

پاکستان کا پیغام، پاکستانیوں کے نام

مرے پچھتر برس میں بچوّ
میرے لیے تم نے کیا کِیا ہے
مجھے بھی چھوڑو، خود اپنا سوچو
وہ کون ہیں جن کو ساتھ تم لے کے چل رہے ہو