غزل
وہ جن سے پاسِ عہدِ وفا بھی چلا گیا
اُن سے تو اختیارِ جفا بھی چلا گیا
اِک زُعم وہ کہ ہم کو جزاء پر ہے اختیار
bاِک حشر یہ کہ حرفِ دعاء بھی چلا گیا
صبحِ آزادی
مری زمیں پر کئی دِنوں سے
عجیب موسم اُتر رہے ہیں
رُتیں نا مہرباں ہونے لگی ہیں
بہاریں آ بھی جائیں تو
عائشہ حسن کے لئے ایک نظم
(اُسکی سالگرہ پر)
!تمہیں معلوم ہے ماؤ
پسِ زنداں
تمہارے بابا کی آنکھوں میں
آنسو کب اُترتے ہیں؟
اُجڑتے شہر کا نوحہ
!سُنو
ہمارے شہر پہ آسیب چھا رہا ہے
ہماری گلیوں میں اور مُحلّوں میں
خوف پاؤں جما چُکاہے
ہماری صُبحوں کی روشنی
غزل
اپنا احساس وہ ایسے بھی سِوا رکھتا ہے
مِل بھی جائے تو مجھے دور ذرا رکھتا ہے
مجھ سے تنہائی میں ملِنے کا طلبگار ہے وہ
بزم اپنی کو جو غیروں سے بھرا رکھتا ہے
غزل
وفا کے باب میں عنواں کوئی نیا دے گا
کہو گے پھول تو خوشبو کا وہ پتا دے گا
اُفق پہ ڈوبتا سورج دہائی دیتا ہے
سحر سے پہلے اُسے موت کوئی لا دے گا
غزل
جو بھی رشتہ تھا کِسی سے اُسے توڑا صاحب
اِس محبت نے کہیں کا نہیں چھوڑا صاحب
مائلِ جود و کرم تھا دِلِ یاراں جِس دِن
عین دروازے سے ہم نے اُسے موڑا صاحب