غزل


توڑ دینا ہے اگر عہدِ وفا، جا چلا جا

سوچ کر کچھ اُسے میں نے ہی کہا، جا چلا جا

طرزِ جمہور مِرے شہر کا دستور نہیں

ایسا سودا نہ بِکے گا نہ بِکا، جا چلا جا

غزل


وہی راستے، وہی منزلیں، وہی گردشیں مہ و سال کی

وہی داستانِ جنونِ دل، وہی یاد چشمِ غزال کی

وہ بھٹک رہا ہے نہ جانے کیوں مرِی سوچ کے خم و پیچ میں

کہ وہ جو جانتا تھا گلی گلی، مرے شہرِ فکر و خیال کی

بےنشاں


وہ دن ابھی تک نگاہ میں ہیں

کہ ہم نے گھنٹوں قریب بیٹھے

زمانے بھر کے دُکھوں سکھوں کے حوالے دے کر

زباں بیاں کے جوہر دکھائے تھے

غزل


میرا لہو جو صحنِ چمن میں بکھر گیا

ہر اِک اداس پھول کا چہرہ نکھر گیا

آنکھیں سلگ اٹھی ہیں کسی کے خیال میں

شامِ فراق تیرا مقدر سنور گیا

مکلی
(شہرِ خموشاں سے ایک مکالمہ)


کبھی دریا یہاں سے چند قدموں کی مسافت تھا
جہاں حدِّ نظر قبریں دکھائی دے رہی ہیں
بہت سے اَن کہے قِصے
بہت سی اَن کہی باتیں