غزل


شہر کو لُوٹا، شہر جلایا مگر شہر کے امیر ٹھہرے

ہمیں تھا دعویٔ قتل جن پر وہی ہمارے سفیر ٹھہرے

سُراغِ قاتل مِلے تو کیسے کہاں سے لائے کوئی گواہی

کہ ہاتھ سارے جو خوں رنگے تھے وہ منصفوں کے مشیر ٹھہرے

نظم


ہمارے دم سے ہے اب آبروئے دار و رسن

ہمارے حرف ہیں آبِ حیاتِ شعر و سُخن

ہمارے نام سے ہے حرمتِ شبِ زنداں

ہماری سانس سے بادِ نسیمِ صبحِ جواں

غزل


اب تو خواہش بس یہی ہے ایک گھر ایسا ہو

چار دیواریں ہوں اُسکی اور وہ اپنا بھی ہو

یوں تو ہر لمحہ، ہجومِ دوستاں ہے اُس کے ساتھ

کیا یہ ممکن ہے کہ وہ میری طرح تنہا بھی ہو

غزل


تری دُعا کا بھی جِس پہ اثر نہ ہو پائے

وہ زخم دے کہ کوئی چارہ گر نہ ہو پائے

ہمی سے رسم چلی شہر میں گواہی کی

مگر ہمی تھے کہ جو معتبر نہ ہو پائے

کوٹ لکھپت جیل ۱۹۸۸ء


سیاہ گھنیری اداس راتوں کا اِک تسلسل
اور اُس میں ہم سب
خود اپنی ہستی کی زندگی کے لئے
دلیلیں تراشتے ہیں