کچھ اپنے بارے میں


Muhammad Yaqoob and Family in Sialkot (1967)

1960ء کا پاکستان، جب میں سیالکوٹ میں درمیانے طبقے کے ایک گھر میں پیدا ہوا اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخر کے پاکستان سے ہر لحاظ سے مختلف تھا۔ درحقیقت ان دونوں کے درمیان موازنے کی کوئی کوشش بھی ممکن نہیں۔ ان چھ دہائیوں میں آنے والی تبدیلی نہ صرف ایک جوہری تبدیلی ہے بلکہ یہ کسی ایک نوعیت کی تبدیلی نہیں۔ یہ درحقیقت کثیر الجہت (Multi-Faceted) بھی ہے اور گھبیر (Complex) بھی۔ میری نسل کے پاکستانیوں نے اس معاشرے کو تین ہمہ جہت تبدیلیوں (Transformations) سے گزرتے دیکھا ہے۔ معاشرتی (Social)، معاشی (Economic) اور اخلاقی (Ethical)…… اور ان میں سے ہر انقلاب اپنے انداز میں اسے مکمل طور پر بدل گیا۔

ویسے تو بیسویں صدی کا دوسرا نصف اور اکیسویں صدی کے آغاز پوری دنیا کے لئے طرح طرح کے انقلاب لائے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ کیسے ایک ملک یا معاشرت میں آنے والی تبدیلی اتنی مکمل، اتنی حیران کن اور اتنی گھمبیر تھی جتنی ہمارے یہاں۔ میں یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ بحیثیت مجموعی اس کے نتائج مثبت ہیں یا منفی لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ہماری معاشرے کے صرف آداب ہی نہیں بدلے معیار بھی بدل گئے ہیں۔ ہماری معیشت کے زاوئیے ہی نہیں بدلے بنیادیں ہی یکسر تبدیل ہو چکی ہیں اور ہماری اخلاقیات کے سبق ہی نئے نہیں انتساب بھی یکسر تبدیل ہو چکا ہے (میری خواہش تھی کہ ”انتساب“ کی جگہ ”نصاب“ کا لفظ استعمال کروں لیکن جب اخلاقیات کا نصاب باقی ہی نہیں رہا تو یہ کیسے ممکن ہو)۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اس پاکستان کو دور، کہیں بہت دور، چھوڑ آئے ہیں جہاں سیاست، معاشرت، معیشت حتیٰ کہ اخلاقیات کی بنیاد کسی نظریہ (Ideology) پر ہوتی تھی۔ آپ کسی کی سوچ، کسی کے نظریے سے اختلاف تو کر سکتے تھے اور اس کی اصولی بنیادوں پر سوال بھی اٹھا سکتے تھے لیکن اس نظریے، اس سوچ سے اس شخص کی وابستگی میں جو اخلاص کارفرما ہوتا تھا وہ شک اور شبے سے بالا تر رہتا تھا۔ آج اسی معاشرے کی پہچان بلکہ طرۂ امتیاز بہتان، دشنام اور گالی کے سوا کچھ نہیں۔ میانہ روی سے عدم برداشت تک کا یہ سفر مذہبی فرقہ واریت سے شروع ہوا اور آج سیاسی معاشیات (Political Economy) تک آ پہنچا ہے۔ میں یہ ضرور واضح کرنا چاہوں گا کہ میں نے ”سیاسی نظریے“ (Political Ideology) کا حوالہ سوچ سمجھ کر دیا ہے کیونکہ میرا یہ یقین ہے کہ آج کے پاکستان میں نہ تو کوئی سیاسی نظریہ ہے نہ سیاسی جماعت اور نہ ہی سیاسی سوچ (Vision)۔ معاشرے کے طاقتور طبقوں میں معاشی وسائل کے فیصلوں اور ریاست کے طاقتور اداروں میں فیصلہ سازی کے اختیار کی جنگ کو سیاست، حکومت یا نظریہ کہنا، تاریخ اور سیاسیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے بہرطور میری بساط سے باہر ہے۔

انسانی تاریخ میں تبدیلی ہمیشہ بحیثیت مجموعی ایک مثبت قوت رہی ہے اور ایسی مثالیں بہت کم ہوں گی جہاں ہر تبدیلی کی کوکھ سے صرف انحطاط (Deterioration) نے جنم لیا ہو۔ یہ کہتے ہوئے لیکن مجھے یہ تکلیف دہ اعتراف بھی کرنا پڑے گا کہ گزشتہ نصف صدی میں ہر اعتبار سے ہماری معاشرت، معیشت، سیاست اور اخلاقیات نے بہر طور صرف انحطاط ہی دیکھا ہے۔ فیض احمد فیض تاریخی اعتراف:

Faiz Ahmad Faiz ca. 1970

”یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں“
سے لے کر شورش کاشمیری کی تلخ توائی:
”میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں“
اور خود میرے اپنے طریق اظہار:
”گھر کے دروازوں پہ دستک دے رہے ہیں حادثے
ایک لمحے میں نہ جانے کیا سے کیا ہو جائے گا
چھوٹے چھوٹے آنگنوں میں چاندنی اترے گی کیا
ہاں امیِرشہر کا گھر چاند سا ہو جائے گا“

تک اسی احساس، اسی سوچ کے مختلف زاوئیے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا اور وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے انحطاط کے اس سفر کو تیز تر کیا۔ اس کا احاطہ شاید ایک یا ایک سے زیادہ طویل مثالوں یا نشستوں کا متقاضی ہو۔ یہاں تو میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ گزشتہ چھ دہائیوں میں ادب اور شاعری سے متعلق اپنے تجربے کا تجزیہ اسی حوالے سے آپ کے سامنے رکھوں۔ تاہم میرا وعدہ ہے کہ زندگی رہی تو ان موضوعات کو بھی جلد احاطہء تحریر میں لاؤں گا کہ یہ اس ملک کا جو میری پہلی اور آخری شناخت (Identity) ہے ہمیشہ قرض رہے گا۔ میں یہ بھی بخوبی جانتا ہوں کہ ہمارا قومی مزاج سچ کا زیادہ عادی نہیں رہا اور ایسی کوئی بھی کوشش ایک اور طویل امتحان کا باعث بن سکتی ہے لیکن مجھ جیسے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ ہماری ماؤں کی سادگی نے ہمارے خمیر میں سچ کے علاوہ کوئی اور کاشت ہی نہیں کی۔ سو بقول افتخار عارف اگر:

”مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے“

والا معاملہ ہونا ٹھہرا تو میں اس کے لئے بھی ذہنی طور پر تیار ہوں۔ ویسے بھی مٹی کا قرض اتارنا عام حالات میں واجب اور ابتلاء کے دور میں فرض ٹھہرتا ہے۔

Mr. Muhammad Yaqoob (1999)

میرے والد تقسیمِ پاکستان کے قریبا گیارہ ماہ بعد مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ وہ سری نگر میں ہی جنگِ عظیم اول کے پہلے سال 1914ء میں پیدا ہوئے تھے جہاں سے انہوں نے 1934ء میں شری پرتاپ کالج، سری نگر سے گریجویشن کی۔ پاکستان آنے سے پہلے وہ مقبوضہ کشمیر کے محکمہ جنگلات میں ملازمت کرتے رہے۔ کشمیری زبان پر مکمل عبور رکھنے کے علاوہ، اردو، فارسی اور انگریزی زبان اور ادب سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ اردو زبان کی محبت اور تربیت، جسے میں نے ہمیشہ بنیادی ذریعہ اظہار بنایا، مجھے ان سے ورثے میں ملی۔ ان کی ہمیشہ یہ خواہش بھی رہی کہ میں فارسی زبان پر عبور کر سکوں لیکن بات کسی بھی نشستن، گفتن، برخاستن سے آگے نہ بڑھ سکی۔ فارسی سے متعلق ان کے اصرار کی اصل وجہ علامہ محمد اقبال کی فارسی شاعری سے ان کا عشق تھا اور انہیں ہمیشہ مجھ سے یہ گلہ رہا گہ ”تم نے علاّمہ کہ کو خاک سمجھنا ہے، تمہیں تو فارسی ہی نہیں آتی“۔ کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اس خیال پر تب بھی قائم رہے جب میں گھنٹوں تک کلامِ اقبال انہیں زبانی سناتا رہتا حتیٰ کہ انتہائی محنت اور خالصتاً فارسی لب و لہجہ میں

دریں حسرت سرا عمر یست افسونِ جرس دارم
ز فیضِ دل طپیدن ہا خردشِ بے نفس دارم

بار بار سنا کر بھی میں انہیں قائل نہ کر سکا کہ میں اقبال فہمی میں کسی استاد کا نہیں تو ایک قابلِ ذکر شاگرد کا مرتبہ ضرور رکھتا ہوں۔ میری اقبال فہمی میں میرے عزیز چچا (والد گرامی کے سگے ماموں زاد) ”یعقوب محمود“ کا بھی ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ وہ میرے والد کے ہم عصر (کچھ ہی سال چھوٹے) اور بچپن کے ساتھی تھے۔ مجھے ہمیشہ یہ دکھ رہے گا کہ اقبال کو پڑھنے اور چاہنے والوں نے اقبالیات پر ان کی کامل اور یکتا دسترس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں ان کی اپنی درویشانہ طبیعت تھی جو انہیں ہجوم سے دور رکھتی تھی۔ جب کبھی بھی میں واہ کینٹ میں واقع ان کے گھر کا دروازہ کھول کر داخل ہوتا ان کے چہرے پر رونق آ جاتی۔ ایک طرف گھر کے باقی افراد اہلِ خانہ سے بات چیت میں مصروف ہوتے اور وہ میرا ہاتھ تھامے مجھے اپنے بستر پر بٹھا لیتے۔ بس پھر ان کی اقبال فہمی ہوتی اور میری تشنگی، گھنٹوں گزر جاتے نہ میرے سوال ختم ہوتے اور نہ ہی ان کے جوابوں کی نت نئی جہتیں۔ کیا کمال شخص تھے عمر بھر اقبال کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا اور سب کچھ تج کر فکرِ اقبال کی آبیاری کرتے رہے۔

خود والدِ گرامی جنہیں ہم پیار سے ”باجی“ کہا کرتے تھے کہ ادب پسندی صرف اقبالیات تک محدود نہ تھی، غالب، داغ، میر تقی میر، سوداء، فیض احمد فیض، احسان دانش سب ہی ان کے شوق و ذوق کی دسترس میں تھے اور سبھی عمر کے آخری حصے تک انہیں ازبر رہے۔ جب کبھی میں اس پر حیرت کا اظہار کرتا تو کہتے ”زندگی سادگی سے گزارو اور خواہشات کو محدود رکھو، حافظہ عمر بھر ساتھ دے گا“۔ عمر بھر قناعت (Contentment) کی جیتی جاگتی تصویر رہے۔ یقین جانیں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے ہم سے اور ہمارے بچوں سے ”تعلیم“ کے علاوہ کسی چیز کی فرمائیش کی ہو۔ خیر ادب و سخن سے متعلق ان کی گفتگو کا مخاطب ہم پانچ بھائیوں میں سے اکثر میں ہی رہتا یا پھر میرے بچپن اور جوانی کے وہ دوست جن سے وہ گھنٹوں ان موضوعات پر گفتگو کرتے۔ میں ابھی ہائی سکول میں ہی تھا کہ انہوں نے اور میرے بڑے بھائی نے میرے لئے جیب خرچ کے علاوہ ایک ”ماہانہ کتاب الاؤنس“ بھی مقرر کر دیا جس سے میں شاعری، ادب اور تاریخ سے متعلق کوئی بھی کتاب خرید سکتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں کتاب معیاری اور سستی ہونے کے علاوہ ایک قیمتی اثاثے (Valuable Asset) کا درجہ رکھتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مطالعہ، ہوا اور پانی کی طرح ایک طبعی ضرورت (Physical Need) بن گیا۔ آج بھی جب تک رات سونے سے پہلے کم از کم 45 منٹ یا زیادہ کچھ پڑھ نہ لوں نیند آنکھوں میں نہیں اترتی۔ سچ پوچھیں کہ کتاب (چاہے کوئی بھی ہو) میرے لئے ایک طبعی ضرورت تو ہے ہی میری جبلّت کا ایک حصہ بھی بن چکی ہے۔ تاہم باجی اور میرے بھائی دونوں کو کتاب کے معیاری ہونے پر اصرار ہوتا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس میں اکلوتی رعایت انہوں نے 1970ء کی دہائی میں اس وقت کی جب مجھے کتاب الاؤنس سے ہر ماہ ”سب رنگ“ خریدنے کی اجازت بھی مل گئی لیکن یہ تبھی ممکن ہوا جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ ”سب رنگ“ کوئی روائیتی ڈائجسٹ نہیں، طرح دار ادیب محترم شکیل عادل زادہ کی عرق ریز تحقیق و تحریر کا مجموعہ ہے۔

Mr. Muhammad Yaqoob and Fehmida Baigum (1990’s)

میری والدہ فہمیدہ بیگم، ۱۹۲۰ء میں جموں میں پیدا ہویئں۔ یوں تو اُنہوں نے صرف آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی لیکن وہ اسلام اور برِصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر مکمل عبور رکھتی تھیں۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری جیسے مقررین کو جلسوں میں سُن چُکی تھیں اور طرزِ تحریر اور تقریر کی ساخت اور خوش اسلوبی دونوں سے کما حقۂ واقف تھیں۔ میں اُن کے پانچ بیٹوں میں سب سے چھوٹا اور سب سے لاڈلا تھا اور میری چھوٹی عمر سے ہی وہ اپنے تمام دُکھ سُکھ سب کو چھوڑ کر مجھ سے بانٹتی تھیں۔ اسکی وجہ نہ تو اپنوں نے کبھی بتائی نہ میں نے کبھی پوچھی لیکن مجھے اپنے بچپن ہی سے اِس بات کا احساس تھامیرا اور امی (جنہیں میں پیار سے کئی بار ”بےبے“ بھی کہا کرتا تھا) کا رشتہ دوسرے بھائیوں کے ساتھ اُن کے تعلق سے کہیں زیادہ مظبوط ہے۔ ’’باجی‘‘ کیطرح امّی بھی تقسیمِ ہند کے دور کی اُس نسل سے تعلق رکھتی تھیں جنہوں نے اَن تھک محنت اور لازوال ایثار کو اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون کا حصہ بنا لیا تھا، ہر کام کو بہرطور ”Perfection“ سے ہونا تھا۔ اُن کی قربت کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت چھوٹی عُمر میں ہی گھر کا سودا سلف لانے میں اُن کا ساتھ دینے کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑی جو بزاتِ خود ایک بڑی تربیت تھی۔ میری طرح، میری بیوی رباب سے بھی اُن کا تعلق ایک مختلف نوعیت کا رہا۔ میری سرکاری ملازمت کے دوران جب میں کوئیٹہ یا لاہور یا پاکستان سے باہر رہا تو ہمیشہ ایک خلا سا رہا۔ میرے بھائی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ فواد کا جہاز فرینکفرٹ سے اسلام آباد کے لئے اڑے یا اُسکی گاڑی لاہور سے پنڈی کے لئے روانہ ہو، امی کے چہرے کا رنگ اور روشنی بدل جاتی ہے۔ اپنی عمر کے آخری حصے تک جب بھی مجھے پنڈی آنا ہوتا وہ کمرے سے نکل کر باورچی خانے میں جا بیٹھتیں اور پھر ایک ایک کھانا اپنی ذاتی نگرانی میں تیار کرواتیں۔ میں رات گئے پہنچوں یا صبح سویرے واپس روانہ ہوں، وہ اُٹھ کر میرے ساتھ ہی بیٹھ جاتیں اور آخری لمحے تک میرے ساتھ گزارتیں۔ یقین جانیںِ سینکڑوں کتابیں پڑھنے، لاتعداد معاشروں اور معاشرتی قواعد و ضوابط کو قریب سے دیکھنے اور دنیا کے کونے میں ماں بیٹوں کی بدن بولی کو انتہائی توجہ اور انہماک سے دیکھنے کے باوجود، میں آجتک یہ نہیں سمجھ پایا کہ خداتعالیٰ نے اِنہیں کِس مٹی سے بنایا تھا۔ ایسا ایثار، ایسی قربانی، خاندان سے ایسا ناطہ، بچوں سے ایسی بے مِثل محبت، اُن کی بیویوں سے ایسا لگاؤ اور برتاؤ اور پھر اِن سب باتوں سے بڑھ کر ایسی بے نیازی، ایسا غناء، کبھی کسی چیز کی خواہش کرتے دیکھا نہ سُنا۔ شادی پر ملنے والے زیور والد کو کاروبار میں سرمائے کے لئے دے دیئے اور پھر پوری زندگی بھر کوئی زیور نہیں پہنا، کبھی کوئی میک اپ نہیں کیا مگر چہرے پر ایسی طمانیت، ایسا وقار کہ آنکھ نہ ٹھرے۔ اُن کی شادی کی پچاسویں سالگرہ پر میرے بھا ئی فاروق نے سونے کے دو کڑے بہت شوق سے بنوائے اور ضد کرکے اُنہیں پہنائے۔ شام کو جب سارے مہمان جاچُکے اور ہم گھر والے باقی رہ گئے تو امّی نے دونوں کڑے ہاتھ سے اُتارے، رباب کو پاس بُلوایا اور اُسے تھما دیئے۔ ساتھ ہی فاروق سے بولیں ”اپنی بیوی (انجم بھابھی) اور وقار کی بیوی (سیمی بھابھی) کو اور بنوا دینا، اسی طرح کے“۔ نا قابلِ یقین ایثار، نا قابلِ بیان اعتماد اور وہی باجی جیسا درویشانہ مزاج۔ ۲۴ جون ۲۰۱۳ کو اُن کے انتقال سے لے کر آجتک ایک دِن ایسا نہیں آیا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک خلاء محسوس نہ کیا ہو۔ زندگی کے آخری دِنوں تک کتاب اور اخبار سے اُن کی دوستی رہی۔

فنا ہو جایئں گے ہم اور تم آنسو بہاؤ گے
ہمارے بعد ہم جیسے کہاں سے لوگ لاؤ گے

آب حیران ہوں گے کہ میں یہ سارا ذکر کیوں لے بیٹھا۔ دراصل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پچھلی پانچ دہائیوں میں ہماری معاشرت میں جو جوہری تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم تبدیلی کتاب، ادب ادر شاعری کا ہمارےگھروں کے روزمرہ سے مکمل اوجھل ہونا ہے۔ ان میں سے کچھ بھی ہمارے روزمرہ کا حصہ نہیں رہا۔ والدین کو اگر کبھی بچوں سے بات کرنے کا وقت میسر آ بھی جائے تو موضوع روزمرہ کی تعلیم/نصاب یا سکول/کالج کے گریڈ (Grades) ہی تک محدود رہتا ہے۔ یہ تبدیلی درحقیقت ہماری معاشرت میں آنے والی جوہری تبدیلی کا نتیجہ (Outcome) ہے۔ ہماری سیاست، معاشرت، معیشت اور اخلاقیات میں سے جوں جوں نظریہ نکلتا گیا ہماری زدگی خالصتاً ”مادیت پرستی (Materialism)“ کی طرف دوڑتی چلی گئی اور ہم تبدریج زندگی کی ان لطافتوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ اردو زبان تو خیر ہمارے بچوں کے لئے اجنبی ٹھہری انگریزی ادب یا شاعری میں دلچسپی بھی ساذ و ناذر ہی دکھائی دیتی ہے۔ میں ان والدین خصوصاً ماؤں کو قابلِ تحسین سمجھتا ہوں جو آج بھی اپنے بچوں سے اظہار کے ان لطیف پیرایوں میں گفتگو کرتے اور ان کے جذبہ و احساس کو جلاء دیتے ہیں۔ یقین جانیے وہ تیزی سے موم ہوتے ہوئے ایک معاشرے میں لطافت کو زندہ رکھنے کا جہاد کر رہے ہیں۔

Fawad Hasan Fawad (1989)

بات کہاں سے چلی اور کہیں جا پہنچی۔ شعر اور ادب سے میری دلچسپی بنیادی طور پر باجی، امی اور میرے بڑے بھائی کی مرہونِ منت ہے جس کو سکول اور کالج میں کئی اساتذہ نے جلاء دی۔ راولپنڈی کے سی بی ٹیکنیکل ہائی سکول جہاں میں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی مردم خیز خطہ جھنگ کے معلم نیاز محمد اکبر صاحب اور بعد ازاں محترم نذیر عامر صاحب جو ایک طویل عرصہ تک پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے اور سب ے بڑھ کر سر سید کالج راولپنڈی میں گزرے چار سال کے دوران استادِ محترم عرفان صدیقی اور ساجد ملک کی برادرانہ محبت اور شفقت کا اس میں بہت حصہ رہا۔ میرے چچا زاد بھائی شاہد ملک، جو خود ایک صحافی اور صاحب ِطرز شاطر ہیں اور میرے دوستوں میں ڈاکٹر ندیم اکرام، اسماعیل قریشی، ڈاکٹر شاہد رفیق، عرفان ملک، شرجیل انظر، میاں عمران جحازی، شیر شاہ خان اور پچھلے کچھ سالوں میں سید نثار حیدر اس سفر میں ساتھ رہے۔

راولپنڈی کے گارڈن کالج کے عقب میں کیفے زم زم کے باہر گھنٹوں سخن آزمائی میں اسمعیل قریشی، شاہد کلیم صدیقی، ملک نعیم اعوان، طفر الحق بہار، طلعت منیر، مجتبیٰ حیدر شیرازی کا ساتھ رہا۔ تیز بارشوں میں بھیگتے اور گھنٹوں بلا تکان پیدل چلتے یا سائیکل چلاتے، نئی غزلوں اور نظموں پر تبصرے، لاہور میں 1979ء کے بعد مال روڈ، لارنس گارڈن اور پھر نہر کے کنارے چلتے چلتے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس تک شاہنواز زیدی، شاہد ملک اور پروفیسر آصف ہمایوں جیسے دوست صفت بھائیوں کے ساتھ طویل نظموں اور غزلوں کا انتخاب اور پھر شیر شاہ خان کے ساتھ کراچی کے ساحل (Sea View) سے لے کر واشنگٹن میں اس کے گھر کے لان تک استاد داغ سے لے کر خود اپنی تازہ ترین تخلیق کی بار بار فرمائش اور ستائش اسی طویل لیکن دلزیب سفر کے مختلف زاویے ہیں۔ سِول سروسز اکیڈمی میں محترم جاوید مسعود، محسن اختر اور بدر السلام نے سخن نوائی کی ایک شمع کو روشن رکھا۔

میں نے اپنے شاعری یا نثر کو شائع کرنے کا کبھی نہیں سوچا ہوتا اور شاید اب بھی یہ سب کچھ آپ تک نہ پہنچتا۔ اگر میری شریکِ حیات رباب حسن، بچوں عائشہ حسن اور سلال حسن اور میرے بچوں جتنی عزیر عالیہ خان کی ضد اور محنت نہ ہوتی۔ اسحاق چغتائی نے جو شب و روز محنت کی اور جس خلوص سے یہ کام سر انجام دیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ میرے بیٹے سلال نے خصوصاً مجھے اس پر قائل کرنے اور پھر اس طریقِ اشاعت یعنی (Website) کے انتخاب، کتابت اور اشاعت میں بہت محنت کی ہے سو یہ غزلیں، نظمیں، حکایتیں، شکایتیں اور تذکرے انہی سب کے نام ہیں اور پھر ان سے بھی بڑھ کر مرحوم والدین باجی (محمد یعقوب) اور امی (فہمیدہ یعقوب) کے لئے جنہوں نے اس شوق اور ذوق اور کتاب دوستی کی بنیاد رکھی۔

Mr. Fawad Hasan Fawad and Mrs. Rubab Hasan (1998)

انسانی احساسات، تجربات اور مشاہدات کیسے سوچوں میں ڈھلتے ہیں اور شاعری یا نثر ایک پیرایہ اظہار کی حیثیت سے کس حد تک ان کی سچائی اور گہرائی کو پڑھنے والوں تک پہنچانے میں کامیاب ہوتی ہے اس کوا فیصلہ آپ یہ سب کچھ یا پھر اس میں سے کچھ پڑھنے کے بعد ہی کر سکیں گے لیکن میں صرف یہ دو شعر آپ کی نذر کرتے ہوئے اجازت لوں گا

اگرچہ پھیلا ہے ہر سو یہ جبر کا موسم
بہار آ گے رہے گی اسے خبر ہی نہیں
درست ہے کہ میں محصور ہوں پسِ دیوار
مگر یہ بات غلط ہے کہ میرے پر ہی نہیں

خدا آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔