پاکستان - سياست اور نظامِ حکومت


پاکستان – سیاست اور نظامِ حکومت


آئیے ایک نظر گزشتہ چند برسوں کے پاکستان پر ڈالیں اور کوشش کریں کہ آنے والے دنوں کے لیے ایک بے لاگ اور حقیقت پسندانہ پیش بینی کریں۔ اگرچہ اس کے لیے ہمیں کئی شعبوں کا احاطہ کرنا پڑے گا لیکن سب سے پہلے سیاست اور نظام حکومت کو لے لیجئے کیونکہ باقی تمام تر شعبوں میں انفرادی اور اجتماعی کارکردگی کسی نہ کسی طرح ان سے منسلک ہوتی ہے۔

اپریل2022ء میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر حکومت وجود میں آئی وہ اپنی پیشرو حکومت کی طرح سیاسی، علاقائی اور قوم پرست جماعتوں کے اتحاد کا نتیجہ تھی۔ ان میں سے کئی سیاسی جماعتیں تو وہ تھیں جو2018ء کے عام انتخابات سے ہی عمران خان کی حکومت سے براہ راست برسر پیکار تھیں، جیسے مسلم لیگ (ن)، جمعیت العلماء اسلام (ف)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور کسی حد تک پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اور کچھ ایسی جنہوں نے تقریباً چار برس عمران خان کی اسی حکومت کا حصہ بن کر گزارے تھے جس کو نئی حکومت کے ارکان پاکستان کی تاریخ کی بدترین اور سب سے ناکام ترین حکومت قرار دیتے تھے اور قرار دیتے ہیں، جیسے اہم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور مسلم لیگ (ق) اس حقیقت سے قطع نظر کہ ان جماعتوں کا پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے تعلق اس تمام عرصے میں ’’کبھی خوشی کبھی غم‘‘ کا تاثر دیتا رہا، یہ بہرطور سچ ہے کہ ان میں سے کئی اس دوان وزاتوں کے لائو لشکر سمیت ایوان ہائے اقدار کی تمام تر مراعات سے لطف اندوز ہوتے رہے اور عمران حکومت کے ہر فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہ۔ کبھی کبھار کسی نے حرف حق کہنے کا ارادہ بھی کیا تو ایسے لگا کہ کسی بھاری بھر کم ہاتھ نے ان کی پشت سہلاتے ہوئے انہیں پھر اسی خمار میں مبتلا کردیا۔ اسلام آباد میں ایوان ہائے اقتدار کے در پردہ معاملات سے آگہی رکھنے والے افراد بارہا اس سلسلے میں ایک باوردی اہلکار کا نام لیتے تو سنائی دیے جنہیں عمران کے اقتدار کے نصف النہار پر پارلیمان میں ایک باقاعدہ دفتر بھی دے گیا تھا لیکن بات چہ مگوئیوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ویسے بھی شنید یہی رہی کہ اس دفتر میں جاکر ہر دم ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز‘‘ کا سا تاثر ملتا تھا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستانی سیاست اور نام نہاد جمہوریت کے علمبردار جتنے رسوا ان چار برسوں میں ہوئے اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی شاعرانہ تعلیٰ سے معمولی کام لیا جائے تو ہمارا سیاسی منظرنامہ اس دوران مرحوم شورش کاشمیری کے اس لازوال شعر کی تصویر بن گیا کہ

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

اور اب ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ10اپریل2022ء کے بعد بھی اس منظرنامے میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ بدلا ہے تو صرف اتنا کہ پارلیمان کے ایوانوں سے وہ دفتر بند کرکے، ارکان پارلیمنٹ کو وہاں سے کچھ ہی کلو میٹر دور ایک عمارت کے سنگ میل کا پتہ بھجوا دیا گیا ہے یا پھر یہ کہ ایک مراعات یافتہ طبقے کی جگہ ایک دوسرا مراعات یافتہ طبقہ زمام اقتدار سنبھال بیٹھا ہے۔ رہا تیرہ جماعتی (کم از کم آخری خبریں آنے تک) حکومتی اتحاد، تو ان میں سے ہر ایک یا تو حکومتی معاملات میں اپنا حصہ بخرہ وصول کرنے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے یا پھر سولہ سنگھار کیے، ایک دوسرے سے بڑھ کر ’’پیامن بھائے‘‘ کی دوڑ میں مصروف ہے کیونکہ کچھ ہی ماہ میں پھر سے نئی دلہن کی تلاش کرنا ٹھہرا ہے۔ سو ایک طرف76ارکان پر مشتمل کابینہ جس کا تقریباً نصف وزیراعظم کو ان کے فرائض کی ادائیگی میں معاونت کا ذمہ دار ہے اور دوسری طرف سرکاری عہدوں اور وسائل کی بندر بانٹ۔ کئی لوگ یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ آخرکار وزیراعظم کے وہ کون سے کارہائے منصبی ہیں جن کی انجام دہی کے لیے انہیں ایک فوج ظفر موج کی ضرورت ہے کیونکہ پچھلے چند ماہ میں داخلی محاذ پر تو ان کے حصے میں ناکامیوں کے سوا کچھ نہیں آیا۔ وہ پنجاب حکومت کے حصول کا معاملہ ہو یا پھر چند دنوں میں وہاں سے بے دخلی کا۔ وہ سابقہ حکومت کی مبینہ کرپشن کو بے نقاب کرنے کا قضیہ ہو یا پھر بار بار عدالتی محاذ پر رسوائی کا، وہ مہنگائی کے جن کو قابو کرنے میں ناکامی ہو یا پھر ہر چڑھتے سورج کے ساتھ پاکستانی کرنسی کی بے قدری۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے پچھلے چھ ماہ کے اندر تین دہائیوں میں انتہائی محنت سے تراشے اپنی انتظامی صلاحیتوں کے بت کو خود ہی پاش پاش کردیا ہے۔ خارجہ محاذ پر البتہ ان کے حصے میں کچھ ابتدائی کامیابیاں آئی ہیں جس کا بہت سا سہرا خود سابق وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے جنہوں نے تقریباً ہر غیر ملکی رہنما سے تعلقات بگاڑ رکھے تھے۔

کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں پارلیمان کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وزیراعظم اور اس کی کابینہ اسی کو جواب دہ بھی ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا حصہ بننے والی تمام سیاسی قوتوں کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ عمران خان شخصی طور پر فیصلے کرتے ہیں اور انہوں نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کو بے وقعت کردیا ہے۔ اعتراض تو سو فیصد بجا تھا لیکن کیا اس نئی تبدیلی سے پارلیمان کی حیثیت میں کوئی فرق بھی آیا؟ کیا خود وزیراعظم نے پارلیمان کے کلیدی کردار کو مانتے ہوئے اس کے اجلاسوں میں معنی خیز شرکت کی؟ کیا اتحادی حکومت کے وزراء نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی میں سنجیدگی سے حصہ لینا شروع کیا؟ کیا حکومتی پالیسیوں میں پارلیمان کے کردار کی جھلک دکھائی دیتی نظر آئی؟ یہ سب بھی چھویے کیا پارلیمان نے کوئی ایسی قانون سازی کی جس سے نظام حکومت، وسائل کی تقسیم، وفاق کیا کائیوں کے مابین اختیارات کے توازن، دولت کے ارتکاز اور معاشی ناہمواری کے سدباب پر کوئی نتیجہ خیز بحث ہوئی یا پھر سفارشات سامنے آئی ہوں؟ کیا پارلیمانی کمیٹیوں خصوصاً پبلک اکائونٹس کمٹی نے حکومتی کارکردگی کا کوئی موثر احاطہ کیا؟ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ اس کے علاوہ پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ایوان سے تحریک انصاف کی مسلسل غیر حاضری نے اس کی نمائندہ حیثیت کو ہی متنازعہ کردیا ہے۔ ظاہر ہے اس غیر حاضری کی ذمہ داری حکومت پر تو نہیں ڈالی جاسکتی لیکن یہ بھی بہرطور ایک حقیقت ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کے حق رائے دہی اور الیکٹرانک بیلٹ کے قوانین میں ترمیم و تنسیخ کے علاوہ ان چھ ماہ میں اس پارلیمان نے کچھ کیا ہے تو وہ صرف اور صرف نیب کے قوانین میں ترامیم کا ایک ایسا پلندہ ہے جو مفادات کے ٹکرائو کا واضح آئینہ دار ہے اور جس نے درحقیقت اس حکومتی اتحاد کی وجہ تشکیل پر ہی سوال کھڑے کردیے ہیں۔ اسی دوران جب ایک طرف تحریک انصاف استعفوں کے معاملے پر قطعی طور پر یک سو نظر نہیں آتی تو دوسری طرف حکومتی جماعتیں بھی اسے ایوان سے باہر رکھنے میں ہی خوش دکھائی دیتی ہیں۔ دونوں اطراف کی یہ دو عملی اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے بہرطور انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف کے بغیر قومی اسمبلی کا کوئی بھی ایوان کم از کم آج پاکستان کی عوام کا نمائندہ ایوان کہلانے کے قابل نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ خود اپنے دوراقتدار میں عمران خان نے ہر وہ کام کیا جس سے پارلیمان کی تحقیر اور بے توقیری ہوئی۔ صرف یہی نہیں کمال تو یہ بھی ہے کہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد انہوں نے بارہا نہ صرف اس کا برملا اعتراف بھی کیا بلکہ دہائی بھی دی کہ مجھے تو اسمبلی چلانے اور ووٹ لینے کے لیے ہر روز کسی اور سے مدد لینا پڑتی تھی۔ اس طرح ایک منتخب وزیراعظم کا یہ کہنا کہ انہوں نے تقریباً چار برس تک اپنی حکومت، غیر نمائندہ قوتوں کے بل بوتے پر دبائو اور دھونس کے ذریعے چلائی، جمہوریت اور خود ان کی منتخب حیثیت کے منہ پر ایک کھلا اور زوردار طمانچہ نہیں تو کیا ہے؟ نیب کے قوانین میں ترامیم کا جو ڈھول آج بجاطور پر حکومتی اتحاد کے گلے پڑ چکا ہے اس میں سے بیشتر ترامیم خود عمران خان کے دور حکومت میں صدارتی آرڈینینسوں کے ذریعے نافذالعمل کی گئیں، یہ اور بات کہ وہ آج خود کو اس سے مبرا اور اتحادی حکومت کے چاروں اور ڈاکوئوں کی ملی بھگت قرار دیتے ہیں۔

دور حاضر میں پاکستانی سیاست کا ایک اور اہم پہلو متحارب سیاسی قوتوں کے بانیے اور ان میں ہر روز ابھرتے کھلے تضادات ہیں۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے ہی یہ بات تو طے ہوچکی تھی کہ نتائج کچھ بھی ہوں وہ متنازعہ ہی رہیں گے کیونکہ ایک طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت تھی اور دوسری طرف پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنت کے کندھوں پر سوار تحریک انصاف جس کا تمام تر بیانیہ حکمران جماعتوں کی کرپشن اور بہت حد تک عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے گھر گھومتا تھا۔ خود مسلم لیگ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہ صرف معرکہ آرا تھی بلکہ سابق وزیراعظم ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کو بنیاد بناکر کامیابی کا یقین رکھتے تھے۔

تاہم ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ خود مسلم لیگ (ن) کے اندر اس بیانیے پر مکمل یکسوئی نہیں تھی اور موجودہ وزیراعظم شہبازشریف سمیت کئی دوسرے زعماء اکثر درپردہ اور بعض اوقات علی الاعلان بھی سیاست کی جارحانہ حکمت عملی کو بدلنے پر مصر تھے۔ جب الیکشن کی مہم زوروں پر تھی تو اس اندرونی کشمکش نے ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے ووٹروں کو شش و پنج میں مبتلا کر رکھا تھا اور دوری طرف تحریک انصاف اور دیگر مخالف جماعتوں کے حوصلے بھی بلند کردیے تھے۔ عمران خان کا اپنا طرز عمل بھی نہ صرف جارحانہ تھا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے چہرے کی تازگی اور لہجے کی کھنک سماں باندھ رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر مسلم لیگ کی قیادت کو ایک نئی عدالتی ہزیمت، نت نئے الزامات اور گرفتاریوں کے ایک لامتناہی سلسلے کا سامنا تھا۔ عین ممکن تھا کہ بے یقینی اور بے ثباتی کے اس عالم میں، عمران خان کا سیل رواں سب کچھ بہا لے جائے لیکن عام انتخابات سے صرف چند روز پہلے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اپنی بیٹی مریم کو ساتھ لیے لاہور ایئر پورٹ پر آ اترے جہاں ان کی عدم موجودگی میں ایک انتہائی متنازعہ عدالتی عمل کے نتیجے میں سنائی گئی سزا کے باعث جیل کی کال کوٹھری باپ بیٹی کی منتظر تھی اور پھر چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ عوام کا ایک ہجوم ان کے استقبال کے لیے لاہور شہر کی سڑکوں پر تو امڈ آیا لیکن انہیں نہ تو کسی مسلم لیگی لیڈر کی قیادت نصیب ہوئی اور نہ ہی ایئر پورٹ جانے کا راستہ ملا۔ سو اس طرح ان کی آمد تاریخ کے دھارے کو تو نہ موڑ سکی لیکن اس نے ایک بار پھر مسلم لیگ کے تن مردہ میں ایک نئی روح پھونک دی اور کم از کم الیکشن کی صبح ان کے روایتی کارکن اور ووٹرز پولنگ اسٹیشنوں پر جا پہنچے۔ دوسری طرف ان کے بھائی شہبازشریف کا یہ فیصلہ کہ طاقتور حلقوں سے براہ راست تصادم سے بہر صورت گریز کیا جائے اور فی الحال کم از کم پر قناعت کرلی، عمران خان کا ممدو معاون ثابت ہوا۔

ایسا کرتے ہوئے یقینی طور پر ان کے ذہن میں یہ خیال بھی تھا کہ وہ اس طرح اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ بڑے بھائی کے جارحانہ طرز عمل کے برعکس وہ طاقتور حلقوں سے تصادم کا خیال بھی نہیں رکھتے اور شراکت اقتدار کے ہر فارمولے کو ماننے پر تیار ہیں۔ ان کی یہ خود سپردگی بھی بہرحال ان کے کسی کام نہ آئی اور کچھ ہی دنوں میں وہ اپنے بیٹے سمیت کوٹ لکھپت کے اسی جیل کی زینت بن گئے جس کے دروازے تک وہ اپنے بھائی اور بھتیجی کو چھوڑ آئے تھے۔ واقعی اقتدار کی راہ داریوں کا بے رحم کھیل کیا کیا رنگ دکھاتا ہے۔

انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو کسی بھی پارٹی کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہوسکی، تاہم تحریک انصاف مرکز میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ پنجاب میں مسلم لیگ نے اکثریت تو لی مگر فرق اتنا نہیں تھا جو ناقابل عبور ہو۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی حقیقت پسندانہ سیاست اور عملیت پسندی کے باعث پھر کامیاب ہوئی۔ تاہم سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی میں تحریک انصاف کا جادو خوب سر چڑھ کر بولا۔ بلوچستان میں حسب معمول آزاد امیدواروں اور مختلف قوم پرست جماعتوں اور قبائلی سرداروں کو کامیابی ملی۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار ایک حکمران جماعت دوبارہ کامیاب ہوئی اور تحریک انصاف نے واضح اکثریت سے حکومت بنائی۔ اس کے باوجود عمران کو وفاق اور پنجاب میں حکومتیں بنانے کے لیے جہانگیر ترین کے جہاز کے ساتھ ساتھ کئی ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی لینا پڑی۔

عمران خان کے حکومت سنبھالتے ہی سیاسی اور عدالتی کشیدہ کاری کا ایک ایسا عمل شروع ہوا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف یہی نہیں یہ بھی پہلی مرتبہ بھی ہوا کہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان براہ راست صحافیوں کو صرف اور صرف مثبت رپورٹنگ کی ہدایت دیتے پائے گئے۔ ہر نئے دن اخبارات کی شہ سرخیاں ’’سیم پیج‘‘ اور ’’نئے پاکستان‘‘ کا اعلان کرتیں اور ہر روز کوئی نہ کوئی عدالت کہانیوں اور مفروضوں کی بنیاد پر سفید جھوٹ کو سچ بنانے میں کامیاب ہوتی۔ صرف یہی نہیں ہوا اور جہاں کوئی کہانی اور مفروضہ بھی نہ ملا وہاں تک لوگوں کو محض اس لیے پس زنداں رکھا گیا کہ یہ عمران خان کی خواہش تھی اور اس کے ان طاقتور کاروباری دوستوں کا انتقام جو سالہا سال اس کی سیاست کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ عارف نقوی اور ابراج اب صرف پاکستان ہی نہیں عالمی فراڈ کے مرکزی کردار ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ2018ء کی جادوگری کے نتیجے میں تشکیل پانے والے حکومتی بندوبست کے ابتدائی دنوں میں انہیں تمام مالیاتی امور کی فیصلہ سازی میں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ صرف یہی نہیں جس کسی نے بھی اس عالمی ڈبل شاہ کو بے نقاب کرنے میں کوئی کردار ادا کیا تھا، وہ ’’راندہ درگاہ ٹھہرا‘‘ کمال تو یہ ہے کہ ان تمام واقعات کو سند افتخار پاکستان کی عدالتوں کے قلم سے ملی اور وہ بھی ایسے کہ الامان و الحفیظ۔

اسی دوران2019ء کا وسط آگیا اور عدالت عظمیٰ نے پاکستان کے طاقتور آرمی چیف کو وزیراعظم کی جانب سے دی گئی تین سالہ توسیع کے قانونی جواز پر سوال کھڑے کردیے۔ سماعت کے ابتدائی دنوں میں جارحانہ سوال اٹھاتی عدالت اور اس کے نکتہ آفریںی چیف جسٹس مگر جلد ہی عدالت کے باہر سے آنے والے پیغامات کے سامنے ڈھیر ہوگئے اور چھ ماہ کی عبوری توسیع دیتے ہوئے گیند اسی پارلیمان کے کورٹ میں پھینک دی جسے وہ گزشتہ پانچ سالوں سے ہر روز گھائل کررہے تھے۔ چیف جسٹس کی اس جارحانہ طرز عمل کی وجہ کیا تھی اور معاملہ پارلیمان کو بھیجنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا، یہ اپنے طور پر ایک حکایت خونچکاں ہے جس کا تذکرہ کسی اور وقت پر چھوڑتے ہیں۔ فی الحال میں صرف یہ کہنا اپنی حرمت قلم کے لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ تو اعتراض آئین و قانون کی عملداری کے لیے اٹھایا گیا تھا اور نہ ہی پارلیمان کو بھیجنے کا فیصلہ اس کے احترام اور کلیدی کردار پر مبنی تھا۔ معاملہ پارلیمان پر آیا تو ایسے لگا جیسے سامری جادوگر نے وہاں کا نظام کار سنبھال لیا ہے۔ 13منٹ کے قلیل دورانیے میں، سالوں سے متحارب جماعتیں اور گروہ، ایک دوسرے کے خون پر آمادہ شعلہ بیاں مقرر اور کئی دہائیوں سے عوام کے حق نمائندگی کو اپنا مذہب قرار دینے والے سیاسی زعماء، صوفیانہ طرز کلام اور عالمانہ طرز بیان کے زور پر اسے پاکستان کی بقاء کے لیے لازم قرار دیتے نظر آئے اور پھر یہ قانون ایک ایسی اکثریت سے منظور ہوا جس کا خواب خود وزیراعظم نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ باقی سب کو چھوڑ دیے، یہ بہرطور ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نواز نے اس عمل میں اپنے اب تک کے بینیے کی نہ صرف مکمل نفی کردی بلکہ اپنی تمام تر سیاسی میراث بھی سربازار لٹا دی۔

یہ سب کچھ شاید کامیاب ٹھہرتا اگر عمران خان کی حکومت انتظامی اور معاشی امور میں واجبی کامیابی بھی حاصل کرلیتی اور ایسا کرنا کسی طور پر بھی ناممکن نہیں تھا۔ انتخابی نتائج میں کھیلے جانے والے کھیل اورRTSسے قطع نظر، یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی ایک قابل ذکر تعداد نے ان سے بہت سی امیدیں باندھ رکھی تھیں اور تبدیلی کا نعرہ کئی دلوں میں جوت جگا چکا تھا لیکن اس کا کیا، کیا جائے کہ ڈرائنگ روموں کی سجی سنوری میزوں اور من پسند اعدادو شمار کے تجزیے کبھی بھی حقیقی گورننس اور کارکردگی کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ یقین مانیں کہ میں عمران خان کی ناکامی کو پاکستانی عوام کی ایک اور بدقسمتی شمار کرتا ہوں کیونکہ بہت عرصے بعد انہوں نے خصوصاً نوجوان پاکستانیوں نے، کسی کو اپنی امید کا مرکز بنایا تھا۔ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ اس سرکاری بندوبست کے نتیجے میں پاکستان کے عوام کو رشوت ستانی اور بدانتظامی کے علاوہ کچھ نہیں ملا اور وہ بھی اس وقت جب وہ نہ صرف عوام میں بھی مقبول تھے بلکہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے سیاسی حکمران تھے جنہیں طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کے قابل ذکر طبقوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ خیر وہ کئی سال پے در پے ناکمیوں کے آئینے سے کامیابیوں کی نت نئی داستانیں کشید کرتے رہے اور طاقتور فیصلہ سازوں کی پشت پناہی کے بل بوتے پر عوامی ذہنوں کی آبیاری بھی کرتے رہے مگر آخرکار ان کا انجام بھی وہی ہوا جو ایسے ہر غیر فطری بندوبست کا ہوتا آیا ہے۔ کئی برسوں سے بنے ’’سیم پیج‘‘ کی تحریر جونہی ماند ہوئی اور اس پر لکھے الفاظ کے متبادل معانی سامنے آنے لگے تو بظاہر ناقابل شکست دکھائی دینے والی حکومت ہفتوں میں تتر بتر ہوگئی۔ اس کے لی تاہم ان کی اتحادی جماعتوں کے ضمیر کو کسی نہ کسی نے کچوکے ضرور لگائے اور ساتھ ہی ساتھ راتوں رات ترتیب دینے والے پاکستان جمہوری اتحاد (PDM) کی بھی کسی نہ کسی نے آبیاری ضرور کی۔ اتحاد کے زعماء چاہے مجھے قابل گردن زنی ٹھہرائیں، پاکستانی تاریخ اور سیاست کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت میں یہ بددیانتی کبھی نہیں کرسکتا کہ اس اتحاد کی تشکیل کو محض ان کی جمہوری جدوجہد کا شاخسانہ قراردوں یا پھر جمہوری، اخلاقی قدروں کے عین مطابق سمجھوں۔ میں یہ بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ ایسا کرنا صرف ریاست بچانے کے لیے لازم ٹھہرا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ سب کچھ یا تو عمران خان کی فسطائیت کے نتیجے میں ممکن ہوا کیونکہ وہ کسی اور سیاسی قوت کو زندہ رہنے دینے کے روا دار ہی نہ تھے اور اپنے پہلے دور حکومت کے خاتمے تک یک جماعتی نظام رائج کردینے پر نہ صرف مصر تھے بلکہ یہ یقین بھی کر بیٹھے تھے کہ طاقتور حلقوں کے پاس اب ان کے علاوہ کوئی اور متبادل باقی نہیں رہا۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ دن بہ دن ان کی انتظامی اور معاشی ناکامیوں کا بوجھ طاقتور حلقوں کے لیے ناقابل برداشت ہورہا تھا اور پھر جب انہوں نے اپنے مجسمہ ساز کو ہی بے دست کرنا چاہا تو وہی نکلا جو ہمیشہ نکلتا آیا ہے۔ اس سارے قضیے میں اگر کسی کا نقصان ہوا تو وہ ریاست پاکستان تھی جس نے معاشی اور انتظامی محاذوں پر ناقابل یقین ابتری کا سامنا کیا اور کررہی ہے۔

سو حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت اور کوئی سیاسی لیڈر نہ تو جمہوری قدروں کا نمائندہ بننے کے قبل رہا ہے اور نہ ہی وہ اقتدار کے حصول کے لیے رات دن کے جوڑ توڑ کو جمہوری جدوجہد کا نام دے سکتا ہے۔ سیاسی شعبدہ بازی اور انتظامی کوزہ گری کے اس حمام میں سب ننگے ہیں لیکن ہر ایک کو اپنے سوا ہر کوئی برہنہ دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایک بے لاگ جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) نے اٹھایا ہے اور سب سے کم پاکستان پیپلز پارٹی نے جس کی تمام تر سیاست ممکنات کے دائرے میں ہی رہتی ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ عمران خان گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہونے والے واقعات کے سبب سے بڑے Beneficiay ہیں اور یہی نہیں اپنی تمام تر سیاسی زندگی میں پہلی مرتبہ طاقتور حلقوں کی حمایت کے بغیر بھی ایک مقبول سیاسی لیڈر بن چکے ہیں۔ اس کا خوفناک پہلو تاہم یہ ہے کہ2018ء کی طرح آج بھی ان کی مقبولیت کسی ٹھوس معاشی پروگرام یا کارکردگی پر نہیں محض ایک بیانیے اور اس سے جڑی روز کی نئی شعبدہ بازی پر ہے جس کا جواب اب تک ان کے سیاسی مخالفین دے سکے ہیں اور نہ سابقہ سیم پیج کے ساتھی۔ ابلاغ کے نئے طریقوں خصوصاً سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کی مکمل اجارہ داری ہے اور روز افزوں معاشی بدحالی کے شکار لوگوں پر ان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حصے میں اگر کچھ آیا ہے تو وہ محض نیب کے کچھ مقدمات کا خاتمہ ہے یا ایک بار پھر شراکت اقتدار… یہ بہرطور طے ہے کہ مقدمات کے خاتمے میں شاید سیاسی اور قانونی جواز تو بے شمار ہوں، اخلاقی جواز بہرطور نہیں ہے۔ ہمارے آج کی ایک سیاسی حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں بیشتر غیر ترقی یافتہ ممالک کے سیاسی منظرنامے کی طرف بہت حد تک شخصی اور یا پھر زیادہ سے زیادہ ایک خانوادے کے زیرانتظام ایک خاص طرز سیاست پر عمل پیرا ہیں۔ جہاں سیاست وراثت کی طرح اگلی نسل کا حق ٹھہرتی ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ آج کے بدلتے وقت کے تناظر میں یہ وہ سب سے بڑا چیلنج ہے جو ان دو جماعتوں کے سامنے کھڑا ہے اور اگر یہ کسی بھی طور عمران خان کے آسیب کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں نہ صرف اس خاندانی طرز سیاست کو خیرباد کہنا ہوگا بلکہ اپنی جماعتوں کی دوسرے درجے کی سیاسی قیادت میں ایسے نوجوان اور اہل مردوں اور عورتوں کو سامنے لانا ہوگا جن سے نئی نسل اپنے آپ کو منسوب کرسکے۔ اس کے علاوہ محض حلقہ کی بنیاد پر یا خاندانی اور وراثتی تعلق سے نکل کر قابلیت کو بنیاد بنانا ہوگا۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں ملکوں کو چلانا ابلاغ کے جدید ذرائع، جدید معاشی اور معاشرتی علوم پر دسترس اور آئین و قانون کی بنیادی تربیت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں جسے میں انتظامی اور ڈھانچہ جاتی اعتبار سے دنیا کا مشکل ترین ملک سمجھتا ہوں۔ یہ آخری چیلنج بڑی حد تک تحریک انصاف کے سامنے بھی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ پس منظر طویل ہوگیا ہے لیکن شاید کسی بھی پیش بینی کے لیے یہ کم از کم مواد ہے جو سامنے رکھنا ہوگا اور اس میں سے کسی ایک پہلو سے ذرا بھی تصر اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم صرف اور صرف ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر لگائے جانے والے تقریری مقابلوں کے خواہشمند ہوں تجزیے کے نہیں۔ اس طرح جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے اس سے مندرجہ ذیل بنیادی نکات کی نشاندہی ہوتی ہے

  1. یوں تو پاکستان کا نظام حکومت اور سیاست کہیں بھی قابل فخر نہیں رہا لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں جو بے توقیری اس کے حصے میں آئی ہے اس کی مثال شاید قیام پاکستان کے اولین سالوں میں بھی نہ ملتی ہو جب پاکستانی سیاست کو ’’میوزیکل چیئرز‘‘ سے تشبیہ دی جاتی رہے۔
  2. پاکستانی سیاسی جماعتوں کا واحد مقصد بہرطور اقتدار کا حصول ہی دکھائی دیتا ہے اور کوئی بھی جماعت کسی قسم کی نظریاتی اساس، اہلیاتی بنیاد یا پھر کسی ایک طے شدہ بیانیے کے ساتھ اپنی مکمل وابستگی کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ یہی نہیں ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہ تو کوئی معاشی منشور ہے اور نہ ہی سماجی اور معاشرتی تبدیلی کا کوئی واضح پروگرام۔
  3. رحقیقت کوئی بھی پاکستانی سیاسی جماعت یا لیڈر محض عوام کی طاقت کے ذریعے برسراقتدار آنے کی امید نہیں رکھتا اور بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ سازباز کے ذریعے ہی اقتدار تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس کا پہلا اور لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسے عوام کے حق حاکمیت پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی جمہوری حکومت یا جمہوری جدوجہد کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میری یہ بات کئی لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوگی لیکن سچ یا تو پورا لکھا جاسکتا ہے یا پھر سرے سے نہیں۔
  4. یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ75برسوں میں ایک دن کے لیے بھی پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے عوام کو اقتدار کی حقیقی منتقلی پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ پاکستان کے ابتدائی عشروں میں سول اور ملٹری بیورو کریسی کی ملی بھگت اور وفاق کی اکائیوں کے درمیان لسانی اور گروہی تضادات نے ان کا کام بہت آسان کردیا۔ پھر بہت ہی جلد ملٹری بیورو کریسی کو احساس ہوا کہ سول انتظامیہ کے ساتھ شراکت اقتدار نہ تو انہیں کوئی قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرتی ہے اور نہ ہی ان کے اقتدار کو فوقیت۔ سو اگر یہ اقتدار بندوق کی نوک پر ہی حاصل ہوتا ہے اور ان کی ادارہ جاتی طاقت سے ہی قائم رہتا ہے تو شراکت اقتدار کیوں؟ نتیجہ یہ کہ بہت ہی جلد سول بیورو کریسی ایک دوسرے درجے اور پھر بہت جلد بارہویں کھلاڑی کی حیثیت اختیار کرگئی۔
  5. پاکستان کا نظام ریاست یا حخومت کبھی بھی کسی آئینی ڈھانچے کی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکا۔ کہنے کو1973ء کے بعد سے آج تک تقریباً50سال سے ہم ایک آئین رکھتے ہیں لیکن ہر ذی شعور شخص اس بات کا ادراک بھی رکھتا ہے کہ اس آئین کی حیثیت واجبی سی ہے کیونکہ نہ تو اس کے خالق (پارلیمان) اس کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اس سے تشکیل پانے والے ادارے اس کے اندر دیے گئے اختیارات کی تقسیم کے نظام کو قابل عمل سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی عاملہ ارتکاز اختیار کے لیے کسی بھی حربے کے استعمال سے گریز کرنے پر تیار نہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہر قسم کی ٹوٹ پھوٹ کو ’’ضمنی نقصان‘‘ (Collateral Damage) گردانتی ہے۔
  6. ہمارا سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہمارے آئین نے جس ایک ادارے کو ’’آخری فیصلہ ساز (Utimate Arbitrator) کی حیثیت دی ہے وہ اعلیٰ عدلیہ ہے لیکن یہی عدلیہ ہر بار اپنے اس کردار کے انجام میں ناکام ٹھہری ہے۔ محمد منیر سے لے کر آصف کھوسہ تک ہماری عدالتی تاریخ کے فیصلے اپنے لکھنے والوں کا ہی نہیں بلکہ آئین و قانون کی ان کتابوں اور حوالوں کا مذاق بھی اڑاتے دکھائی دیتے ہیں جن پر زعماء ان کی بنیاد رکھتے ہیں اور شاید ہماری تاریخ کا یہ ایک پہلو سب سے تاریک تر ہے۔
  7. پاکستان کئی برسوں سے ایک حقیقی قومی سیاسی قوت سے محروم ہے۔ بے نظیر بھٹو غالباً وہ آخری سیاسی لیڈر تھیں جنہیں چاروں وفاقی اکائیوں میں کسی حد تک مقبولیت حاصل تھی۔ اگرچہ ان کی سیاسی طاقت کا مرکز بہرطور سندھ تھا۔ اسی طرح نوازشریف میں قومی سیاسی افق پر قبولیت کا امکان تو تھا لیکن وہ خود ہی بوجوہ اپنی طاقت کے مرکز پنجاب سے باہر نکل کر اپنا دائرہ اثر بڑھانے پر کبھی آمادہ نہ ہوئے اور آج بھی پنجاب میں مقبولیت کی بنیاد پر اپنے تیئں حق حکمرانی رکھتے ہیں۔ رہے عمران خان تو ان کے خالقوں کا گمان بھی یہی تھا کہ ان میں کرشماتی شخصیت ہونے کی وجہ سے ایک قومی لیڈر بننے کی صلاحیت ہے۔ اسی لیے2018ء کے الیکشن سے چاروں صوبگوں سے ان کی جیت کو یقینی بنایا گیا لیکن صرف الیکشن کی کامیابی کسی کو یہ سند عطا کرنے قاصر ہوتی ہے۔ خود عمران خان وزیراعظم بنے تو ایوان اقتدار کے ایسے اسیر ہوئے کہ ماسوائے سیاسی رسہ کشی کے، کسی وفاقی اکائی کی نظام سیاست و حکومت میں معنی خیز شرکت کی رتی بھر کوشش بھی نہ کی بلکہ یہاں تک ہوا کہ انہوں نے صوبائی حکومتوں بشمول پنجاب کو اپنے ہاتھوں سے چنے متبادل (Proxy) کے ذریعے چلانا چاہا جس نے حکومتی بدانتظامی، اقربا پروری اور کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ تاہم تحریک انصاف اور عمران خان آج بھی ایک قومی سیاسی قوت بننے کی بنیادی ساخت رکھتے ہیں اگر ایسا موقع انہیں دوبارہ ملا تو صرف اور صرف ان کی سوچ اور طریق کار ہی ان کے انجام کا تعین کرے گا۔
  8. ایک طویل عرصے تک ایک قومی سیاسی قوت اور لیڈر سے محروم ہونے کے باعث ریاستی اکائیوں کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں تیزی آتی جارہی ہے اور اگرچہ ہماری طاقت کے بنیادی مرکز اس کو یکسر جھٹلاتے ہیں لیکن بنیادی عمرانیات اورت طقبہ داری معیشت کے طالب علم اس طوفان کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں جو کم ترقی یافتہ علاقوں خصوصاً بلوچستان، قبائلی علاقوں اور اندرون سندھ یا پھر اہم شہری مراکز میں پل رہا ہے۔ اس سے زیادہ دیر تک پہلوتہیشاید بہت خوفناک نتائج بہت جلد سامنے لے آئے۔
  9. پاکستان ایک مرتبہ پھر ایک ایک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک کے سوا تمام تر سیاسی جماعتیں کوئی موثر بیانیہ نہیں رکھتیں اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ نہ صرف ان کی اپنی دوعملی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر کئی دہائیوں تک مکمل ریاستی اور ادارہ جاتی سرپرستی میں چلنے والا عمران خان کا وہ بیانیہ ہے جس کا واحد مقصد ان سب کا خاتمہ اور ایک اکیلی چنیدہ سیاسی قوت کی پرورش تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک سانحہ ہے کہ اب وہی چنیدہ سیاسی قوت اپنے ان خالقوں سے برسرپیکار ہے جو کسی طوربھی قابل قبول نہیں۔ اسی ہفتے میں ہونے والے 8 قومی اسمبلی کے حلقوں کے انتخابات کی تفصیل میں جائے بغیر یہ نتیجہ اخذ کرنا بہرطور کوئی مشکل نہیں کہ پاکستان میں نواز شریف کی عدم موجودگی نے عمران خان کی مقبولیت کو فوقیت دی ہے اور وہ کبھی بھی اتنے مقبول نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ تاہم سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس کی بہت بڑی وجہ خود مسلم لیگ (ن) کی وہ دوعملی ہے جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ پارٹی اور ملک کی زمام اپنے اور اپنے خاندان کے افراد تک محدود رکھنے کی کوشش شہباز شریف کی وزیراعظم نامزدگی، پھر حمزہ شہباز کی وزیراعلیٰ پنجاب نامزدگی اور اب اسحاق ڈار کی واپسی اور وزیر خزانہ کی حیثیت سے تقرری اسی ایک سوچ کا شاخسانہ ہے۔ میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مسلم لیگ (ن) اس دوعملی سے چھٹکارا حاصل کرے اور نواز شریف پاکستان واپس آکر دوبارہ اس کی قیادت سنبھال لیں تو پنجاب کی حد تک مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں توازن بہت حد تک بہتر ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ شاید پھر بھی ممکن نہ ہو کہ مسلم لیگ ن محض پنجاب میں کامیابی کے بل بوتے پر وفاق میں بھی اقتدار حاصل کرسکے۔ اس کے لئے انہیں بہرطور دوسرے صوبوں میں محنت کرنا ہوگا یا ایک مرتبہ پھر ایک اتحادی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے پر تیار ہونا ہوگا۔ اس مشکل سیاسی صورتحال میں ایک اتحادی حکومت کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے اس کا اندازہ پچھلے چار سال میں ہمیں بخوبی ہو چکا ہے۔ یہ منظربظاہر تو بہت دلچسپ دکھائی دیتا ہے لیکن معاشی طور پر تقریباً دیوالیہ پاکستان کے لئے ایک خوفناک خواب سےکم نہیں۔
  10. ان تمام باتوں سےجو صورتحال سامنے آتی ہے اس میں ایک بار پھر اس تمام تر بندوبست کے یکسر خاتمے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت ایسی نہیں کہ طاقتور حلقے اس کا انتظام و انصرام سنبھال کر آنے والے مشکل وقتوں کی ذمہ داری لینا آسان سمجھتے ہوں لیکن یہ بہرطور ایک حقیقت ہے کہ ایسے کسی بھی بندوبست کو ہماری تاریخ میں ہمیشہ اندرونی عوامل کے ساتھ ساتھ بیرونی قوتوں سے جلارملی ہے۔ اگر ہم حال ہی میں صدر بائیڈن کے شائع کردہ امریکہ کے ’’قومی سلامتی کے لائحہ عمل‘‘ پر ایک طائرانہ نظر بھی دوڑائیں تو منظرنامہ شاید کوئی ایسا ناممکن بھی دکھائی نہ دے۔

عمران خان کو بیانے کی سیاست کے ساتھ ساتھ انتخابی سیاست میں بھی برتری حاصل ہے۔ تجزیہ نگاروں اور مبصروں کی اس باریک بینی سے قطع نظر کہ تحریک انصاف نے اپنی آٹھ سیٹوں میں سے 2 ہار دیں یا پھر 6 جیت لیں، یہ بہرطور صاف دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف اپنے مخالف اتحاد پر برتری لیے ہوئے ہیں۔ یہ البتہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہئے کہ تحریک انصاف کے حصے میں قومی اسمبلی کی جو نشستیں آئیں ان تمام پرخود عمران خان امیدوار تھے اور ماسوائے چارسدہ کے حلقے میں جہاں ان کا مقابلہ ایمل ولی خان سے تھا جو ایک اپوزیشن پارٹی کے صف اول کے رہنما ہیں کہیںبھی کوئی اور بڑا نام ان کے سامنے نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئےکہ عمران خان گزشتہ 6ماہ سے زائد عرصے سے ہر روز انتخابی مہم چلا رہے ہیں جس میں وہ لاتعداد جلسوں کے علاوہ، نوجوانوں کے اجتماعات، بارکونسلوں، صحافیوں اور ذہن سازوں سے روزانہ کی بنیاد پر مخاطب ہوتے رہے ہیں۔ دوسری طرف اتحادی جماعتیں صرف حکومتی سیاست تک محدود رہیں اور کوئی متبادل بیانیہ سامنے لانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔ یہ صورتحال آئندہ عام انتخابات میں اگر مکمل طور پر تبدیل نہ بھی ہو تو بڑی حد تک بدل سکتی ہے تام اس کا انحصار بنیادی طور پر انتخابات کے وقت، اس وقت کی معاشی صورتحال اور ان عوام پر ہوگا جنہیں انتخابی مہم میں کلیدی حیثیت حاصل ہوگی۔ اب تک کی صورت حال میں تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان ہی روزانہ کی بنیاد پر ایک پیرانہ گفتگو ترتیب دیتے ہیں اور پھر تمام تر اپوزیشن اسی پیرائے کو جھٹلانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر یہ صورتحال ایسی ہی رہی اور عمران مخالف جماعتیں کوئی متبادل بیانیہ ترتیب دینے میں ناکام رہیں تو تحریک انصاف کی کامیابی کا امکان زیادہ ہوگا۔ تاہم طاقتور حلقوں کی جانب سے ’’یکساں سطح کے کھیل کا میدان‘‘ کی فراہمی پر آمادگی اور نواز شریف کی پاکستان واپسی ایک نیا منظر نامہ تشکیل دے سکتی ہیں۔

یہ سب تو سیاسی حقائق ہیں لیکن یہ سیاسی حقائق نہ تو کسی خلاء میں وجود لیتے ہیں اور نہ ہی وہاں پرورش پاتے ہیں۔ اپنی سیاسی حقائق سے جڑی آج کی حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان ایک تباہ حال معیشت ہے جس کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ دگرگوں ہوتی جار ہی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہی اور ادارہ جاتی قوت کی توجہ اس پر نہیں اور ہر شخص اور گروہ محض اپنے اقتدار اور وسائل میں پہلے سے زیادہ حصے کے لئے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی تیزی سے بگڑتی ہوئی اس معاشی صورتحال سے برسوں تک بے اعتنائی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہم دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو یہ تمام سیاسی بیانیے اور اقتدار کی کشمکش دفن ہو کر رہ جائیں گے۔ سچ یہ بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی یا ادارہ جاتی قوت کو ان معاشی مسائل کا مکمل ادراک نہیں جس کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں اور اگر ہے بھی تو وہ اس سے پہلوتہی کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان تمام حقائق کی روشنی میں جن کا ذکر میں نے اس مضمون میں کیا ہے میری سفارشات مندرجہ ذیل ہیں۔

  1. پاکستان اپنے سیاسی اور معاشرتی انحطاط گروہی، لسانی اور طبقہ جاتی انتشار چند مخصوص طبقوں کی مذہبی اور معاشرتی جنونیت اور تیزی سے تباہ ہوتی ہوئی معیشت کے باعث موجودہ بندوبست اور ادارہ جاتی توازن میں زیادہ دیر تک کام نہیں کر سکتا اور عین ممکن ہے کہ اس اندرونی توڑ پھوڑ اور خلفشار کے باعث ہم ایک دوسرے بھنور میں گرتے رہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی اور ادارہ جاتی قوتیں ایک میز پر بیٹھ کر ایسے لائحہ عمل پر اتفاق کریں جو آئین پاکستان کی حدود کے عین مطابق ہو اور جس کی بنیاد کسی بھی شخص یا ادارے کی ذاتی پسند یا ناپسند سے قطع نظر عوام کی اکثریت کی خواہشات سے ہو جس کا فیصلہ ایک آزادانہ انتخاب کے ذریعے کیا جائے۔
  2. سیاسی پارٹیوں اور انتخابات سے متعلق قوانین میں ایسی فوری ترامیم کی جائیں جو بے معنی نعروں کے ذریعے عوام کو مشتعل کرنے کے بجائے معاشی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلی کے ٹھوس پروگرام کی صورت میں ہوں نہیں ہر سیاسی جماعت یا اتحاد، انتخابات سے کم از کم 60 روز پہلے شائع کرنے کا پابند ہو۔
  3. آئندہ انتخابات کے وقت کا تعین کسی ایک شخص یا جماعت کے مطالبے سے قطع نظر، آئین و قانون کے مطابق طے کیا جائے اور اس وقت تک اگر کوئی تبدیلی ہونا ہے تو وہ صرف نمائندہ ایوان یعنی قومی اسمبلی کے ذریعے ہو۔ یہ واضح رہے کہ تبدیلی کا آئینی طریقہ محض بے اعتمادی کا ووٹ (No Confidence) ہی نہیں بلکہ اعتماد کے ووٹ کے حصول میں ناکامی بھی ہو سکتا ہے لہذا تمام سیاسی قوتوںکو اپنے آپ کو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی تبدیلی کی کوشش کرناہوگی۔
  4. پاکستان کی معاشی صورتحال سڑکوں اور گلیوں میں کسی انتشار کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ لہذاسیاسی رقابت اور تبدیلی کی خواہش کو دوبارہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ذریعے روبرو عمل کرنا مناسب ہوگا۔ تحریک انصاف اور عمران خان کو شاید یہ تجویز پسند نہ آئے لیکن انہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ضمنی انتخابات میں ان کی دو حالیہ کامیابیاں، حکومتی اتحاد کے اس فیصلے کے نتیجے میں ہی ممکن ہوئیں جس نے عمران حکومت کے خاتمے کے لئے ایک غیر فطری اتحاد کو وجود دیا۔ انہیں یہ غلطی دہرانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
  5. ہم نے بارہا ایک ’’میثاق معیشت‘‘ کی ضرورت کی بازگشت سنی ہے۔ میں ذاتی طور پر مراعات یافتہ طبقوں کے مل بیٹھ کر کسی پروگرام پر اتفاق کو پارلیمانی جمہوریت اور نظریاتی سیاست سے متصادم خیال کرتاہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ہر سیاسی جماعت یا اتحاد کا معاشی پروگرام واضح اور قابل عمل تجاویز کے مجموعے پر ہونا چاہئے، جس پر عملدرآمد کے لیے وہ اپنی معاشی ٹیم کے چیدہ ارکان کو پہلے سے سامنے لائیں تاکہ عوام کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ اس طرح ہم بہت حد تک Elite Capture کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
  6. ایک آزادنہ انتخاب کا انعقاد سب قوتوں کا مشترکہ ہدف ہونا چاہئے۔ جس کے لیے تمام ادارے بشمول اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ، الیکشن کمیشن،عاملہ کے تمام شعبے بشمول سول اور ملٹری بیوروکریسی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں خود احتسابی کا ایک بے لاگ نظام قائم کریں اوراس پر عمل پیرا ہوں۔ اس انتخاب کے نتیجے میں اکثریتی جماعتوں کو چاہے وہ مرکز میں ہوں یا صوبوں میں حکومت سازی کی فوری دعوت دی جائے اور اس عمل کو جلدازجلد مکمل کیا جائے۔
  7. انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کو ہر طرح سے کام کرنے کی آزادی دی جائے اور تمام سیاسی قوتیں کسی قسم کی محلاتی سازشوں سے دور رہنے کا عہد کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ، آئین اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ نئی حکومت اور اس کے زیر انتظام ادارے کسی طرح بھی آئینی حدود سے باہر نہ نکل سکیں۔ خصوصاً انہیں اس بات پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا کہ قومی اداروں کے استعمال سے ایک جماعتی نظام کے قیام کی کوئی کوشش نہ کی جاسکے۔ ایسا اس لیے ضرور ہے کہ ہمارے موجودہ معاشی اور معاشرتی بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ کچھ سالوں میں کی جانے والی ایسی ہی کوششیں تھیں جن کو بدقسمتی سے کچھ اداروں اور عدالتوں میں بیٹھے افراد کی پشت پناہی حاصل رہی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے تمام اقدامات نے اناداروں اور خود عدلیہ کو بے توقیر کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔ اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ اعلیٰ عدلیہ سب سے پہلے خود کو اور پھر دوسرے تمام اداروں کو محض آئین اور قانون کے تابع بنانے اور کسی ایسے فلسفہ و قانون (Jurispurdence) کو تشکیل دینے سے گریز کرے جس کی پاکستان کا آئین اجازت نہ دیتا ہو۔
  8. سب سے بڑھ کر تمام سیاسی قوتیں جمہوری نظام میں پارلیمان کی بنیادی حیثیت کی عملداری کے لیے یکجا ہو جائیں اور دونوں ایوانوں میں آنے والی کاروائی کو ذاتی مفادات کے بجائے عوامی مفاد Public Good کا ائینہ دار بنانے پر اپنی تمام تر قوتیں مرکوز کر دیں۔ اسی طرح پارلیمانی کمیٹیوں کے نظام کو فعال کرکے ان برائیوں کا خود سے قلع قمع کریں جو آگے چل کر پارلیمان اور عوامی نمائندوں کی بے توقیری کا سبب بنتے ہیں۔

تاہم یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان تمام تر ممکنات پر عمل صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے اگر ہم اپنی معیشت کی زبوں حالی اور تباہی پر بحیثیت قوم غور کریں اور اپنی اپنی انفرادی جہت میں اس کے سدھارنے کے لیے کام کریں۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا اس کا تجزیہ میں اپنے اگلے مضمون میں کروں گا جس میں معیشت کے تمام پہلوئوں کا جائزہ، بگاڑ کی بنیادی وجوہات اور ان کےسدباب کے لیےعملی اقدامات بھی شامل ہوں۔

نوٹ: یوں تو پاکستانی سیاست کی نیرنگیوں میں کسی بھی نئے اور حادثاتی موڑ کو کبھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم الیکشن کمیشن کا 21 اکتوبر 2022ء کا عمران خان کو نااہل قرار دینے کا اقدام یقیناً اپنے طور پر حیرت انگیز بھی ہے اور کسی حد تک ناقابل یقین بھی۔ میں صبح ہی اپنا مضمون مکمل کرکے کاتب کو بھجوا چکا تھا مگر جمعہ کا دن ایک بار ہنگامہ خیز ثابت ہوا اور اب جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ابھی مکمل تحریری فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ لہذا کسی قسم کی عملی یا قانونی رائے دینے سے قاصر ہوں لیکن اس کے سیاسی مضمرات کے حوالے سے صرف اتنا کہوں گا کہ پاکستانی سیاست ایک بندگلی میں داخل ہو چکی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اب کوئی ایک فریق بھی فاتح قرار نہیں پا سکتا۔ جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ عمران خان اور تحریک انصاف آج کی پاکستانی سیاست کی ایک حقیقت ہیں اور ان کی نفی کرکے کوئی بھی سیاسی منظرنامہ ترتیب دینے کا خیال محض کارلا حاصل ہے۔مقبول سیاستدانوں کی سیاست نہ تو آج تک عدالتی فیصلوں سے ختم ہوئی ہے اور نہ ہی ہوگی۔ سو مجھے یقین ہے کہ بہت جلد پورےسیاسی نظام کو یا تو ان تمام خرابیوں کا حل تلاش کرنا ہوگا جن کی پرورش پچھلے چند برسوں میں کی گئی یا پھر یہ تمام تر بساط ہی لپٹ جائے گی۔ امتحان ایک بار پھر سیاستدانوں کی بصیرت اور دوراندیشی کا ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے پیچھے بہت سے حقائق اور مکمل قانونی جواز بھی ہوگا۔ جو شاید میاں نواز شریف کی نااہلی کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں یکسر ناپید تھے۔ لیکن میں بہرطور اس فیصلے کو پاکستانی سیاست اور ریاست کے مستقبل کے لیے نیک شگون خیال نہیں کرتا۔


Source: روزنامہ جنگ

Dated: 28/10/2022

Link: https://jang.com.pk/news/1152393