غزل


میں تِرے ترک مراسم پہ بھی ناشاد نہیں

پست سوچیں مِرے افکار کی بنیاد نہیں

بارہا سوچا ہے تُجھ سا کوئی تخلیق کروں

دِل سے پوچھا ہے تو وہ مائلِ ایجاد نہیں

غزل


یہ معجزہ بھی تو اِک دِن خُدا دکھائے گا

کُھلے گی آنکھ تو پھر سامنے تو آئے گا

اِس انتظار میں عمریں گُذار دیں ہم نے

وہ چا ہتا ہے ہمیں، خود ہمیں بلائے گا

غزل


وہ کہہ رہا تھا کتنے شگوفوں کی داستاں

اِک داغ جو قبائے نسیمِ سحر میں تھا

دیکھا ہے میں نے اُسکی گلی کا ہر ایک فرد

پتھر اٹھا رکھے تھے اور شیشے کے گھر میں تھا

غزل


بٹھا کے ایک تصوّر کو روبرو میں نے

خود اپنے آپ سے کی رات گفتگو میں نے

نہ جانے کتنے شگوفوں کو چُھو کے آئی تھی

نسیمِ صبح کو دیکھا لہو لہو میں نے